ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے کشمیر کی صورتحال پر ایک بیان جاری کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکار پٹیل کا کہنا ہے کہ کشمیر میں مسلسل آج 22 روز بھی بندشیں اور پابندیاں جاری ہیں۔ جموں اور کشمیر میں مواصلاتی نظام مکمل بند، سکیورٹی کے اضافی انتظامات، سیاسی رہنماؤں کی مبینہ طور پر گرفتاری، میڈیا پر پابندیاں اظہار تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'کشمیر میں غیر معینہ مدت تک لوگوں کے اظہار رائے اور دیگر معمولات پر قدغن لگانا اور انہیں بنیادی حقوق سے محروم کرنا بین الاقوامی اصولوں اور معیار کے بڑے پیمانے پر متضاد ہے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ اس سے حکومت ہند کو خطے سے باہر آنے والی اطلاعات پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔'
واضح رہے کہ5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آیئنی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے بعد انتظامیہ نے مبینہ طور پر متعدد سیاسی رہنماؤں کو حراست میں رکھا ہیں ۔ ان رہنماؤں میں جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی، جموں و کشمیر پیپلز مومنٹ کے سربراہ و سابق ائی اے ایس افسر شاہ فیصل شامل ہیں۔
دوسری جانب ابھی تک کوئی سرکاری معلومات دستیاب نہیں کہ حراست میں لئے گئے افراد کی تعداد کتنی ہے اور کس الزامات کے تحت انہیں حراست میں یا نظر بند رکھا گیا ہے۔
آکر پٹیل نے کہا ' ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے اس سے قبل انتظامی نظربند کے استعمال کا دستاویز کیا تھا، جہاں حکام سیاسی متحرک کی روک تھام کے لیے ایک شخص کو بغیر کسی الزام یا مقدمے کی سماعت کے گرفتار کیا جاتا ہے۔ یہ نظربندیاں نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ خطے میں آزادی اظہار رائے کے خاتمے کی نشاندہی کرتی ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ' امنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے لیے فکر مند ہے۔جموں و کشمیر کے متعلقہ فریقوں کی مشاورت کے بغیر فیصلہ شہریوں کی آزادی کے خاتمے اور مواصلات پر پابندی سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مزید اضافہ اور کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔'
انہوں نے کہا کہ خطے میں بندشیوں کے سبب صحافیوں اور کارکنوں کو بھی خطے کی صورتحال کے بارے میں معلومات دستاویز کرنے اور شیئر کرنے سے روک دیا گیا ہے جس میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے الزامات بھی شامل ہیں۔ کشمیر کی مقامی میڈیا ویب آخری بار 5 اگست کو اپ ڈیٹ رہیں اور اخبارات کے پرنٹ ورژن میں ادارتی رائے نہیں رکھی گئی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کا کہنا ہے کہ 'عوام کے جاننے کے حق میں رکاوٹ ڈالنے کے علاوہ، اس سے صحافیوں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ جاتی ہیں، ان کے ہراساں ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، سیاسی طور پر حوصلہ افزائی کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے اور ان کے کام کے سلسلے میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔'
خیال رہے کہ اس سے قبل اقوام متحدہ سے وابسطہ انسانی حقوق کے ماہرین نے کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری طور پر تمام پابندیوں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ ہائی کمشنر کے دفتر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق ادارے سے منسلک ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ریاست جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد پابندیوں کے نفاذ کے باعث خطے میں کشیدگی بڑھنے کا امکان ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 5 اور 21 اگست کے درمیان 152 افراد کو سرینگر کے ہسپتالوں میں داخل کیا گیا جو پیلٹ اور آنسو کیس شیل سے زخمی ہوئے تھے۔