ایک دور تھا جب سنتوش بھارتی اپنی آواز کا جادو بیرونی ممالک میں بکھیرا کرتے تھے، لیکن کورونا کے اس دور میں انہیں دہلی کی تنگ گلیوں میں گانے پر مجبور کردیا ہے وہ اب معاش کی تلاش میں دہلی کی شاہراہوں پر قوالی سنا کر اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔
سنتوش بتاتے ہیں کہ وہ سنہ 1985 میں واشنگٹن ڈی سی اور سنہ 1998 میں فرانس میں اپنی سریلی آواز سے سامعین کو محظوظ کر چکے ہیں، لیکن اب جب دنیا بھر میں کورونا وبا کی وجہ سے حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ انہیں دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے گلی کوچوں کی خاک چھاننی پڑ رہی ہے۔
مزید پڑھیں: واٹس ایپ کے ذریعے خبروں کی ترسیل کی منفرد پہل
سنتوش نہ صرف قوالی گاتے ہیں بلکہ کیسریا بالم اور دیگر علاقائی نغمے بھی گنگنایا کرتے ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے انہیں نظرانداز کیے جانے سے پریشان ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ حکومت اگر ہمارے جیسے فنکاروں کی مدد نہیں کرے گی اور ہماری اس وراثت کو تحفظ فراہم نہیں کرے گی تو مستقبل میں بھارت کی اس وراثت کو ختم ہونے میں وقت نہیں لگے گا۔