نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے، کسان جو پچھلے 6 ماہ سے دہلی کی سرحدوں پر دھرنے پر بیٹھے ہیں، اب انہوں نے یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔ 26 مئی کو کسان تحریک کے 6 ماہ مکمل ہونے پر کسان یوم سیاہ منائیں گے۔
کئی دور کی بات چیت بے نتیجہ رہنے کے بعد بھی کسان اس امید میں دھرنے پر بیٹھے ہیں کہ ایک دن تحریک کامیاب ہوں گی اور ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں گے۔
اس دوران کسانوں کی جانب سے بات کرنے کی بھی پہل کی گئی لیکن حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ اس دوران راکیش ٹکیت کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ جب حکومت پورے ملک کی جائیداد بیچ کر آزاد ہوجائے گی، تو بات چیت کر لیں گے۔
حالانکہ بات چیت کے علاوہ بڑی بات یہ ہے کہ یہ تحریک جو مختلف انداز میں بحث میں آئی تھی ، ٹریکٹر مارچ کے بعد بھارت بند اور یوم سیاہ کے بارے میں زیر بحث ہے۔ اس کے لئے بھارتیہ کسان یونین نے اپیل کی ہے کہ 26 مئی کو سبھی کسان اپنے گھر پر کالے جھنڈے لگائیں، گاؤں میں سبھی کسان حکومت کا پتلہ جلائیں اور گاؤں کے مرکزی چوراہے پر سبھی کسان پر امن احتجاجی مظاہرہ کریں۔
کسان کی جانب سے اسے لے کر سنگھو بارڈر اور ٹکری بارڈر پر تیاریاں کی گئی ہیں۔ باقاعدہ لنگر اور میڈیکل چیک کیمپ لگانے والے کسانوں کے لئے یوم سیاہ کتنا کامیاب ہوگا یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔ بڑی بات یہ ہے کہ کسانوں کے اس اعلان کو عام آدمی پارٹی سمیت متعدد اپوزیشن جماعتوں نے حمایت کی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے نہ صرف حمایت کی ہے ، بلکہ وزیر اعظم مودی کو بات چیت کے حوالے سے ایک خط بھی لکھا تھا۔
دراصل، سنیکت کسان مورچہ کی بات چیت کی پہل کا بھی گزشتہ روز عام آدمی پارٹی نے بھی حمایت کی تھی۔ عام آدمی پارٹی کی جانب سے رکن پارلیمنٹ بھگونت مان اور ایم ایل اے راگھو چڈھا نے وزیر اعظم کو ایک خط لکھا تھا۔ ان دونوں رہنماؤں نے مطالبہ کیا تھا کہ مرکزی حکومت کسانوں کے ساتھ دوبارہ بات چیت کرے اور تینوں زرعی قوانین کو واپس لیے جائیں۔
بتادیں کہ سنیکت کسان مورچہ نے وزیر اعظم مودی کو خط لکھ کر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کی اپیل کی تھی۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ کسانوں کے ذریعہ خارج کردہ تینوں زرعی اصلاحاتی قوانین کو منسوخ کرنے کا فیصلہ اب جلد لینا چاہیئے اور ایم ایس پی پر خرید کو لازمی کرنے کے لئے ایک قانون بنا دینا چاہیئے۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ تحریک کررہا کسان مورچہ حکومت سے اپنی شرائط پر ہی حکومت سے بات چیت کا آغاز کرنا چاہتا ہے۔
مزید پڑھیں:
زرعی قوانین کی مخالفت میں نوجوت سدھو نے لہرایا سیاہ پرچم
حکومت اور کسان مورچہ کے مابین آخری بات چیت 22 جنوری کو ہوئی تھی۔ مذاکرات کے 12 راؤنڈ کے بعد بھی دونوں فریق کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ حکومت نے زیادہ سے زیادہ 1.5 سال تک زرعی قوانین کو ملتوی کرنے کی تجویز کو اپنی حتمی تجویز بتائی تھی لیکن کسانوں نے اسے مسترد کردیا تھا۔ مورچہ کا کہنا ہے کہ اس تحریک کے آغاز سے ہی تحریک میں شامل 470 کسان مختلف وجوہات کی بناء پر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اس کے لئے مرکزی حکومت ذمہ دار ہے۔