ETV Bharat / state

مشہور بھارتی ادیب مظفر حنفی کو پاکستان جانے کو کس نے کہا تھا؟ - born on 1st April 1936 in Khandwa Madhya Pradesh

گزشتہ 50 برس سے اردو دنیا میں ممتاز شناخت رکھنے والے ادیب وشاعر اور محقق مظفر حنفی کا آج انتقال ہوگیا ہے وہ کافی دنوں سے علیل تھے، انہیں سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں جامعہ نگر کے بٹلہ ہاوس قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ای ٹی وی بھارت ان کے انتقال پر خصوصی رپورٹ پیش کررہا ہے۔

اردو دنیا میں ممتاز شناخت رکھنے والے ادیب وشاعر اور محقق مظفر حنفی
اردو دنیا میں ممتاز شناخت رکھنے والے ادیب وشاعر اور محقق مظفر حنفی
author img

By

Published : Feb 29, 2020, 4:19 PM IST

Updated : Oct 10, 2020, 9:38 PM IST

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ انہوں نے اپنی 84 سالہ زندگی کے نشیب و فراز کو شیئر کیا۔ ملک کی تقسیم سے لے کر سنہ 2020 میں شہریت قانون کے خلاف جاری مظاہروں کے تعلق سے وہ کیا سوچتے ہیں،ان سب کے بارے میں بتایا۔

اردو دنیا میں ممتاز شناخت رکھنے والے ادیب وشاعر اور محقق مظفر حنفی

بھارت میں بہت کم ایسے لوگ بچے ہیں، جنہوں نے تقسیم ملک کا شور سنا اور اس کی ہولناکی دیکھی، اس عہد کے ادیب،جو رستگار زمانہ کے گواہ کہلاتے ہیں، شاید سب چل بسے، لیکن اردو کا ایک شاعر، مظفر حنفی ج وبھارت میں ہی رہے اور اردو ادب کی زلفیں سنوارتے ہوئے جوانی کی سرحد عبور کرکے ضعیفی تک پہنچ گئے۔

عدم تشدد اور سیاسی عدم توازن کے سمع خراش شور سے گھرے سال 2020 میں جب وہ پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں توایک اہم اور عجیب یادداشت ابھر کر آجاتی ہے۔وہ یادداشت ان کے والد سے جڑی ہے جنہوں نے مظفر حنفی سے ایک بار نہیں بارہا پاکستان چلے جانے کی ضد کی تھی

ایسا کیا ہوا تھا؟ اور اس یادداشت کا آج سے کیا تعلق ہے؟

خداکی مرضی سے مظفر حنفی رواں برس یکم اپریل کو اپنا 84 یوم ولادت منائیں گے۔ گزشتہ 2۔3 ماہ سے ان کی طبیعت بہت ناساز ہے اور وہ اب اپنے گھر میں قید ہوگئے ہیں۔

مظفر حنفی کی خدمات 50 برس سے زائد پر محیط ہے، محکمہ جنگلات کی ملازمت سے لے کر دہلی کے ادبی حلقوں میں مقبولیت،این سی ای آر ٹی کے پروڈکشن افسر سے جامعہ ملیہ میں لکچرر و ریڈر اور پھر کلکتہ یونیورسٹی میں اقبال چیئر پروفیسر بننے تک یہ اردو دنیا کے لیے چمکتا دمکتا چاند رہے۔

مظفر حنفی غربت وافلاس کا پردہ چاک کر نامور ادیب کیسے بنا، سنئے انہیں کی زبانی! مظفر حنفی کے پاس کامیابیاں گنوانے کے لیے بہت سی چیزیں ہیں، دس سے زائد شعری مجموعے، درجنوں کتابوں کی تدوین وتصنیف اور تراجم اور پھر ان کی خدمات کے اعتراف میں دیے گئے سیکڑوں ایوارڈز، دہلی کے گنجان آبادی والے بٹلہ ہاوس میں واقع ان کے مکان کے ایک کمرہ کی دیوار پر بڑی ترتیب سے سجے ہیں۔

مظفر حنفی کی ذاتی ویب سائٹ پرپروفیسر ظفر احمد نظامی نے لکھا ہے کہ 'یہ ہیں ممتاز افسانہ نگار، نامور قلمکار، شاعر بے بدل، واقف رموز غزل، محقق باریک بیں، شخصیت دلنشیں، صاحب طرز تنقید نگار، اسپ ادب کے شہسوار، ماہر ادب اطفال، ادیب با کمال، قنوطی فکر حیات کی نفی یعنی محمد ابوالمظفر، مظفر حنفی۔

مظفر حنفی یکم اپریل 1936ء کو واقفِ عالم آب و گل ہوئے، اہل دانش ور صاحب دل ہوئے ابتدائی تعلیم کھنڈوہ میں پائی، مسلم یونیورسٹی سے لو لگائی، دل کے حکم کی تعمیل کی، ایم اے، ایل ایل بی کی تکمیل کی۔

شاد عارفی کے فن سے مدد لی، برکت اللہ، یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند لی، عبدالقوی دسنوی کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہوئے۔ شاد عارفی کی محبت میں استاد کامل ہوئے۔ ویسے ان کا وطن فتح پور ہسوا ہے جو کھنڈوہ سے کافی دور ہے۔

1971ء میں دہلی آ گئے یہاں کے ادبی حلقوں پر چھا گئے شہرت نے کلکتہ کھینچ بلایا، یونیورسٹی میں اقبال چیئر پروفیسر بنایا۔ ڈاکٹر مظفر حنفی تدریس سے سبکدوش ہو کر اب دہلی میں رہائش پذیر ہیں، انھیں بچپن ہی سے پڑھنے لکھنے کا شوق رہا، شعر و ادب کا ذوق رہا اور سنہ 1949ء میں ادبی سفر شروع کیا۔

انھوں نے ''یم بہ یم اور پردہ سخن'' اٹھایا، ''طلسم حروف'' سے ص ''دیپک راگ'' گایا، ''کھل جا سم سم'' سے ''دروازہ ٹٹولا، ''تیکھی غزلوں '' کا قفل کھولا۔ ''پانی کی زبان'' کو ''عکس ریز'' کیا، صریر خامہ'' کو اور تیز کیا۔ ''دو غنڈوں سے'' انتقام کیا، اینٹ کا جواب قلم سے دیا۔

جذبہ فرض شناسی سے کام لیا، احترام کے ساتھ استاد کا نام لیا۔ شاد کی غزلوں سے پردہ اٹھایا، ''ایک تھا شاعر'' سے دنیا کو متعارف کرایا۔ کہیں ان کے کلیات چھپوائے، کہیں مکاتب منظر عام پر لائے۔ نثر و غزل کی داد پائی، ہر شعر میں شوخیِ تحریر پائی، گجراتی ڈراموں کی سفارش کی، اریا افسانوں پر کرم کی بارش کی، نئی ناول نگاری اختیار کی، جاسوسی ناولوں کی بھر مار کی۔ ''چوروں کے قاتل'' کو ''پیلی کوٹھی'' میں پکڑا۔ ''بین الاقوامی لٹیرے'' کو ''تارِ عنکبوت'' سے جکڑا۔ ''شرلاک ہومز'' کو ہندوستان بلایا، ''پر اسرار قتل'' کا پتہ لگایا، دنیائے صحافت میں نام پایا۔ ''نئے چراغ'' کا اجالا پھیلایا، غرضیکہ وہ ہر صنف کے کوچہ گرد ہیں، میدان علم و ادب کو مرد ہیں۔

انھیں نثر و نظم پر یکساں قدرت ہے ان کی ہر تحریر میں ندرت ہے، ان کی حیات و شخصیت پر تحقیقی کام ہو چکا ہے، ان کی ادبی خدمات کا نام ہو چکا ہے۔ وہ خود کئی اساتذہ کو ڈاکٹر بنا چکے ہیں، پی ایچ ڈی کی ڈگری سے سجا چکے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ انہوں نے اپنی 84 سالہ زندگی کے نشیب و فراز کو شیئر کیا۔ ملک کی تقسیم سے لے کر سنہ 2020 میں شہریت قانون کے خلاف جاری مظاہروں کے تعلق سے وہ کیا سوچتے ہیں،ان سب کے بارے میں بتایا۔

اردو دنیا میں ممتاز شناخت رکھنے والے ادیب وشاعر اور محقق مظفر حنفی

بھارت میں بہت کم ایسے لوگ بچے ہیں، جنہوں نے تقسیم ملک کا شور سنا اور اس کی ہولناکی دیکھی، اس عہد کے ادیب،جو رستگار زمانہ کے گواہ کہلاتے ہیں، شاید سب چل بسے، لیکن اردو کا ایک شاعر، مظفر حنفی ج وبھارت میں ہی رہے اور اردو ادب کی زلفیں سنوارتے ہوئے جوانی کی سرحد عبور کرکے ضعیفی تک پہنچ گئے۔

عدم تشدد اور سیاسی عدم توازن کے سمع خراش شور سے گھرے سال 2020 میں جب وہ پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں توایک اہم اور عجیب یادداشت ابھر کر آجاتی ہے۔وہ یادداشت ان کے والد سے جڑی ہے جنہوں نے مظفر حنفی سے ایک بار نہیں بارہا پاکستان چلے جانے کی ضد کی تھی

ایسا کیا ہوا تھا؟ اور اس یادداشت کا آج سے کیا تعلق ہے؟

خداکی مرضی سے مظفر حنفی رواں برس یکم اپریل کو اپنا 84 یوم ولادت منائیں گے۔ گزشتہ 2۔3 ماہ سے ان کی طبیعت بہت ناساز ہے اور وہ اب اپنے گھر میں قید ہوگئے ہیں۔

مظفر حنفی کی خدمات 50 برس سے زائد پر محیط ہے، محکمہ جنگلات کی ملازمت سے لے کر دہلی کے ادبی حلقوں میں مقبولیت،این سی ای آر ٹی کے پروڈکشن افسر سے جامعہ ملیہ میں لکچرر و ریڈر اور پھر کلکتہ یونیورسٹی میں اقبال چیئر پروفیسر بننے تک یہ اردو دنیا کے لیے چمکتا دمکتا چاند رہے۔

مظفر حنفی غربت وافلاس کا پردہ چاک کر نامور ادیب کیسے بنا، سنئے انہیں کی زبانی! مظفر حنفی کے پاس کامیابیاں گنوانے کے لیے بہت سی چیزیں ہیں، دس سے زائد شعری مجموعے، درجنوں کتابوں کی تدوین وتصنیف اور تراجم اور پھر ان کی خدمات کے اعتراف میں دیے گئے سیکڑوں ایوارڈز، دہلی کے گنجان آبادی والے بٹلہ ہاوس میں واقع ان کے مکان کے ایک کمرہ کی دیوار پر بڑی ترتیب سے سجے ہیں۔

مظفر حنفی کی ذاتی ویب سائٹ پرپروفیسر ظفر احمد نظامی نے لکھا ہے کہ 'یہ ہیں ممتاز افسانہ نگار، نامور قلمکار، شاعر بے بدل، واقف رموز غزل، محقق باریک بیں، شخصیت دلنشیں، صاحب طرز تنقید نگار، اسپ ادب کے شہسوار، ماہر ادب اطفال، ادیب با کمال، قنوطی فکر حیات کی نفی یعنی محمد ابوالمظفر، مظفر حنفی۔

مظفر حنفی یکم اپریل 1936ء کو واقفِ عالم آب و گل ہوئے، اہل دانش ور صاحب دل ہوئے ابتدائی تعلیم کھنڈوہ میں پائی، مسلم یونیورسٹی سے لو لگائی، دل کے حکم کی تعمیل کی، ایم اے، ایل ایل بی کی تکمیل کی۔

شاد عارفی کے فن سے مدد لی، برکت اللہ، یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند لی، عبدالقوی دسنوی کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہوئے۔ شاد عارفی کی محبت میں استاد کامل ہوئے۔ ویسے ان کا وطن فتح پور ہسوا ہے جو کھنڈوہ سے کافی دور ہے۔

1971ء میں دہلی آ گئے یہاں کے ادبی حلقوں پر چھا گئے شہرت نے کلکتہ کھینچ بلایا، یونیورسٹی میں اقبال چیئر پروفیسر بنایا۔ ڈاکٹر مظفر حنفی تدریس سے سبکدوش ہو کر اب دہلی میں رہائش پذیر ہیں، انھیں بچپن ہی سے پڑھنے لکھنے کا شوق رہا، شعر و ادب کا ذوق رہا اور سنہ 1949ء میں ادبی سفر شروع کیا۔

انھوں نے ''یم بہ یم اور پردہ سخن'' اٹھایا، ''طلسم حروف'' سے ص ''دیپک راگ'' گایا، ''کھل جا سم سم'' سے ''دروازہ ٹٹولا، ''تیکھی غزلوں '' کا قفل کھولا۔ ''پانی کی زبان'' کو ''عکس ریز'' کیا، صریر خامہ'' کو اور تیز کیا۔ ''دو غنڈوں سے'' انتقام کیا، اینٹ کا جواب قلم سے دیا۔

جذبہ فرض شناسی سے کام لیا، احترام کے ساتھ استاد کا نام لیا۔ شاد کی غزلوں سے پردہ اٹھایا، ''ایک تھا شاعر'' سے دنیا کو متعارف کرایا۔ کہیں ان کے کلیات چھپوائے، کہیں مکاتب منظر عام پر لائے۔ نثر و غزل کی داد پائی، ہر شعر میں شوخیِ تحریر پائی، گجراتی ڈراموں کی سفارش کی، اریا افسانوں پر کرم کی بارش کی، نئی ناول نگاری اختیار کی، جاسوسی ناولوں کی بھر مار کی۔ ''چوروں کے قاتل'' کو ''پیلی کوٹھی'' میں پکڑا۔ ''بین الاقوامی لٹیرے'' کو ''تارِ عنکبوت'' سے جکڑا۔ ''شرلاک ہومز'' کو ہندوستان بلایا، ''پر اسرار قتل'' کا پتہ لگایا، دنیائے صحافت میں نام پایا۔ ''نئے چراغ'' کا اجالا پھیلایا، غرضیکہ وہ ہر صنف کے کوچہ گرد ہیں، میدان علم و ادب کو مرد ہیں۔

انھیں نثر و نظم پر یکساں قدرت ہے ان کی ہر تحریر میں ندرت ہے، ان کی حیات و شخصیت پر تحقیقی کام ہو چکا ہے، ان کی ادبی خدمات کا نام ہو چکا ہے۔ وہ خود کئی اساتذہ کو ڈاکٹر بنا چکے ہیں، پی ایچ ڈی کی ڈگری سے سجا چکے ہیں۔

Last Updated : Oct 10, 2020, 9:38 PM IST

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.