ETV Bharat / state

انسدادِ سائبر کرائم کے لیے موثر حکمت عملی ناگزیر - موبائل فونز

ورلڈ وائڈ ویب یعنی انٹرنیٹ کی دُنیا میں متحرک سائبر کرمنلز نے موبائل فونز کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ادھم مچا رکھی ہے۔

author img

By

Published : Apr 18, 2021, 10:29 AM IST

مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے پارلیمنٹ کو فراہم کی گئیں اطلاعات کے مطابق سال 2019ء میں ملک کے اندر چار لاکھ سائبر حملے ہوئے ہیں۔ اگلے سال جب کووِڈ وبا پھوٹ پڑی، ایسے حملوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا اور ان کی تعداد ساڑھے گیارہ لاکھ ریکارڈ کی گئی۔

برطانوی سیکورٹی سافٹ ویئر اینڈ ہارڈ ویئر کمپنی سوفوز کی ایک تحقیق کے مطابق ملک میں ایک سال کے عرصے میں 52 فیصد اداروں پر سائبر حملے کئے گئے ہیں۔ اگرچہ پوری دُنیا میں سائبر حملوں کا شکار ہونے والے لوگوں کی تعداد 35 کروڑ ہوگئی ہے لیکن صرف اکیلے بھارت میں 13 کروڑ لوگ اس طرح کے حملوں کا شکار ہوگئے ہیں۔

اگرچہ ملک میں آن لائن کرامز، اور آن لائن گیمبلنگ کے ساتھ ساتھ حملہ آوروں کی جانب سے لون ایپز تک رسائی حاصل کرنے کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، لیکن پکڑے جانے والے مجرمان کی تعداد مقابلتاً بہت کم ہے۔

شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے پچاس فیصد سائبر جعل سازی کے معاملات ابتدائی تحقیق کے بعد ہی خارج کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ چند سال کے دوران گوا جیسی ریاست میں سائبر جرائم سے متعلق ایک بھی کیس میں کسی کو سزا نہیں ملی ہے۔

اس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مجرم کس عیاری کے ساتھ قانون کی گرفت سے چھوٹ جاتے ہیں۔

مجرموں کو تلاش کرنے میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے سائبر جڑے ادارے کہتے ہیں کہ اس سے قبل کہ وہ ایک معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے ہوتے ہیں، مزید بیس سے تیس معاملات اُن کے پاس آجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر مجرموں کی نشاندہی بھی ہوجاتی ہے لیکن ان سے لوٹا ہوا پیسہ واپس حاصل نہیں ہو پاتا ہے کیونکہ یہ پیسہ دوسری جگہوں پر پہلے ہی منتقل کیا گیا ہوتا ہے۔

لون ایپس ایک اور بڑا مسئلہ ہے، جس سے ریاستی سرکاریں نمٹ نہیں پارہی ہیں۔ ریاستیں اس طرح کی ایپس، جن کی وجہ سے کئی لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، کو مکمل طور ختم کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں۔ سائبر کرائم کو تب تک قابو کرنا ممکن نہیں، جب تک مرکزی اور ریاستی سرکاریں ایک دوسرے کے ساتھ تال میل کے ساتھ کام نہیں کرتی ہیں۔

چونکہ وبا کی وجہ سے گھروں میں بیٹھ کر ہی کام کرنے کی روایت پیدا ہوگئی ہے، اس صورتحال میں دہلی، ممبئی، حیدرآباد، بنگلور اور چنئی جیسے شہروں میں لوگوں کی پرسنل انفارمیشن چرانے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

حیدر آباد میں رونما ہوئے ایک واقعہ میں نویں جماعت کا ایک طالبِ علم ایک میڈیکل سٹوڈنٹ کے نام پر کسی کو فحش پیغام بھیجا۔

اس طرح کی جعلسازی کی ان گنت مثالیں سامنے آرہی ہیں۔ بعض واقعات میں لوگوں کے کریڈیٹ کارڈ سے جڑی اطلاعات چرائی گئی ہیں۔ مجرم متاثرین کو لون کی فراہمی اور گفٹ بہم پہنچانے کے نام پر اپنی جال میں پھنسا لیتے ہیں۔

آن لائن ہراساں کرنے اور دیگر جعلسازیوں کے حوالے سے ایسے قوانین تو موجود ہیں، جن کے بل پر مجرموں کو سزا دی جاسکتی ہے لیکن یہ قوانین اُس صورت میں بے کار ثابت ہوجاتے ہیں، جب مجرموں کو بر وقت کال کوٹھری میں پہنچانے میں ناکامی ہوجاتی ہے۔

امریکا، کینیڈا، انگلینڈ، روس، برازیل اور دیگر کئی ممالک میں سائبر کرائم کو قابو کرنے کےلئے وقت وقت پر نئی نئی حکمت عملیاں مرتب کی جارہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب سپین میں محض ایک سال کے دوران 1.25 لاکھ کروڑ لوٹ لیں تو ظاہر ہے کہ حکام ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیسے بیٹھ سکتے ہیں۔

ہمارے ملک میں کسی انسان کے قتل میں ملوث شخص کو سزائے موت دی جاتی ہے لیکن سائبر مجرمان جو ان گنت زندگیوں کو تباہ کرنے کا باعث بنتے ہیں کے تئیں نرمی برتی جاتی ہے۔ اس ضمن میں قوانین کو زیادہ موثر بنانے کےلئے ان کا جائزہ لینے اور اُنہیں از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔

بنگلور شہر میں پولیس نے ایک ایسا نظام قائم کیا ہوا ہے، جس کے تحت اگر کرائم کے بارے میں فون نمبر 112 پر بروقت اطلاع دی گئی تو صرف دو گھنٹے کے اندر اندر دھوکے باز کے اکاونٹ سے پیسہ واپس اس کے اصل مالک کے اکاونٹ میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔

اس طرح کا نظام دوسری ریاستوں میں بھی متعارف کیا جانا چاہیے۔ سائبر کرمنلز کو سخت سزا دلانے کےلئے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کی جانی چاہیں۔ سائبر کرائم سے نمٹنے کےلئے جدید ٹیکنالوجی کی مدد لینے کےلئے ریاستی حکومتوں اور مرکز کو تال میل کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔

مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے پارلیمنٹ کو فراہم کی گئیں اطلاعات کے مطابق سال 2019ء میں ملک کے اندر چار لاکھ سائبر حملے ہوئے ہیں۔ اگلے سال جب کووِڈ وبا پھوٹ پڑی، ایسے حملوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا اور ان کی تعداد ساڑھے گیارہ لاکھ ریکارڈ کی گئی۔

برطانوی سیکورٹی سافٹ ویئر اینڈ ہارڈ ویئر کمپنی سوفوز کی ایک تحقیق کے مطابق ملک میں ایک سال کے عرصے میں 52 فیصد اداروں پر سائبر حملے کئے گئے ہیں۔ اگرچہ پوری دُنیا میں سائبر حملوں کا شکار ہونے والے لوگوں کی تعداد 35 کروڑ ہوگئی ہے لیکن صرف اکیلے بھارت میں 13 کروڑ لوگ اس طرح کے حملوں کا شکار ہوگئے ہیں۔

اگرچہ ملک میں آن لائن کرامز، اور آن لائن گیمبلنگ کے ساتھ ساتھ حملہ آوروں کی جانب سے لون ایپز تک رسائی حاصل کرنے کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، لیکن پکڑے جانے والے مجرمان کی تعداد مقابلتاً بہت کم ہے۔

شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے پچاس فیصد سائبر جعل سازی کے معاملات ابتدائی تحقیق کے بعد ہی خارج کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ چند سال کے دوران گوا جیسی ریاست میں سائبر جرائم سے متعلق ایک بھی کیس میں کسی کو سزا نہیں ملی ہے۔

اس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مجرم کس عیاری کے ساتھ قانون کی گرفت سے چھوٹ جاتے ہیں۔

مجرموں کو تلاش کرنے میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے سائبر جڑے ادارے کہتے ہیں کہ اس سے قبل کہ وہ ایک معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے ہوتے ہیں، مزید بیس سے تیس معاملات اُن کے پاس آجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر مجرموں کی نشاندہی بھی ہوجاتی ہے لیکن ان سے لوٹا ہوا پیسہ واپس حاصل نہیں ہو پاتا ہے کیونکہ یہ پیسہ دوسری جگہوں پر پہلے ہی منتقل کیا گیا ہوتا ہے۔

لون ایپس ایک اور بڑا مسئلہ ہے، جس سے ریاستی سرکاریں نمٹ نہیں پارہی ہیں۔ ریاستیں اس طرح کی ایپس، جن کی وجہ سے کئی لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، کو مکمل طور ختم کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں۔ سائبر کرائم کو تب تک قابو کرنا ممکن نہیں، جب تک مرکزی اور ریاستی سرکاریں ایک دوسرے کے ساتھ تال میل کے ساتھ کام نہیں کرتی ہیں۔

چونکہ وبا کی وجہ سے گھروں میں بیٹھ کر ہی کام کرنے کی روایت پیدا ہوگئی ہے، اس صورتحال میں دہلی، ممبئی، حیدرآباد، بنگلور اور چنئی جیسے شہروں میں لوگوں کی پرسنل انفارمیشن چرانے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

حیدر آباد میں رونما ہوئے ایک واقعہ میں نویں جماعت کا ایک طالبِ علم ایک میڈیکل سٹوڈنٹ کے نام پر کسی کو فحش پیغام بھیجا۔

اس طرح کی جعلسازی کی ان گنت مثالیں سامنے آرہی ہیں۔ بعض واقعات میں لوگوں کے کریڈیٹ کارڈ سے جڑی اطلاعات چرائی گئی ہیں۔ مجرم متاثرین کو لون کی فراہمی اور گفٹ بہم پہنچانے کے نام پر اپنی جال میں پھنسا لیتے ہیں۔

آن لائن ہراساں کرنے اور دیگر جعلسازیوں کے حوالے سے ایسے قوانین تو موجود ہیں، جن کے بل پر مجرموں کو سزا دی جاسکتی ہے لیکن یہ قوانین اُس صورت میں بے کار ثابت ہوجاتے ہیں، جب مجرموں کو بر وقت کال کوٹھری میں پہنچانے میں ناکامی ہوجاتی ہے۔

امریکا، کینیڈا، انگلینڈ، روس، برازیل اور دیگر کئی ممالک میں سائبر کرائم کو قابو کرنے کےلئے وقت وقت پر نئی نئی حکمت عملیاں مرتب کی جارہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب سپین میں محض ایک سال کے دوران 1.25 لاکھ کروڑ لوٹ لیں تو ظاہر ہے کہ حکام ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیسے بیٹھ سکتے ہیں۔

ہمارے ملک میں کسی انسان کے قتل میں ملوث شخص کو سزائے موت دی جاتی ہے لیکن سائبر مجرمان جو ان گنت زندگیوں کو تباہ کرنے کا باعث بنتے ہیں کے تئیں نرمی برتی جاتی ہے۔ اس ضمن میں قوانین کو زیادہ موثر بنانے کےلئے ان کا جائزہ لینے اور اُنہیں از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔

بنگلور شہر میں پولیس نے ایک ایسا نظام قائم کیا ہوا ہے، جس کے تحت اگر کرائم کے بارے میں فون نمبر 112 پر بروقت اطلاع دی گئی تو صرف دو گھنٹے کے اندر اندر دھوکے باز کے اکاونٹ سے پیسہ واپس اس کے اصل مالک کے اکاونٹ میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔

اس طرح کا نظام دوسری ریاستوں میں بھی متعارف کیا جانا چاہیے۔ سائبر کرمنلز کو سخت سزا دلانے کےلئے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کی جانی چاہیں۔ سائبر کرائم سے نمٹنے کےلئے جدید ٹیکنالوجی کی مدد لینے کےلئے ریاستی حکومتوں اور مرکز کو تال میل کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.