ETV Bharat / state

دہلی پولیس اسمبلی کمیٹی کو ایف آئی آر کاپیز دینے کو تیار نہیں

میٹنگ میں پرنسپل ہوم سیکریٹری سے دریافت کیا گیا کہ پولیس کمیٹی کو ایف آئی آر مہیا کیوں نہیں کرارہی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایف آئی آر پبلک ڈومین میں ہونی چاہیے، پھر پولیس سپریم کورٹ کی حکم عدولی کیوں کر رہی ہے؟۔

دہلی فساد
دہلی فساد
author img

By

Published : Sep 16, 2020, 8:11 PM IST

دہلی کے شمال مشرقی علاقہ میں سال کے شروع میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں متاثرین کو حکومت کی جانب سے معاوضہ ملنے کے سلسلہ میں آج دہلی اسمبلی کی اقلیتی فلاحی کمیٹی کی ایک بار پھر میٹنگ منعقد کی گئی۔
آج ہونے والی میٹنگ میں شمال مشرقی دہلی کے تینوں ایس ڈی ایم، شاہدرہ کے ایس ڈی ایم، شاہدرہ اور نارتھ ایسٹ کے ضلع مجسٹریٹ، پرنسپل ہوم سکریٹری، ڈویزنل کمشنر محکمہ روینیو و دیگر متعلقہ افسران کو طلب کیا گیا تھا، جن سے کمیٹی کے چیئرمین امانت اللہ خان و دیگر ممبران نے فساد متاثرین کو مہیا کرائے گئے معاوضہ کے بارے میں سوالات کئے اور متاثرین کو حکومت کی جانب سے اب تک ملنے والے معاوضہ کی بابت معلومات دریافت کی گئیں۔

اقلیتی فلاحی کمیٹی کی آج ہونے والی میٹنگ میں چیئرمین امانت اللہ خان کے علاوہ مصطفی آباد سے رکن اسمبلی حاجی یونس، سیلم پور سے رکن اسمبلی عبد الرحمن، رکن اسمبلی جرنیل سنگھ، دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ذاکر خان، دہلی وقف بورڈ کے سیکشن آفیسر محفوظ محمد کے علاوہ دیگر افسران نے شرکت کی۔

میٹنگ میں پرنسپل ہوم سیکریٹری سے دریافت کیا گیا کہ پولیس کمیٹی کو ایف آئی آر مہیا کیوں نہیں کرارہی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایف آئی آر پبلک ڈومین میں ہونی چاہیے، پھر پولیس سپریم کورٹ کی حکم عدولی کیوں کر رہی ہے؟۔

چیئرمین امانت اللہ خان نے اس سلسلہ میں ہوم سیکریٹری کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ پولیس سے اس سلسلہ میں وضاحت طلب کی جائے۔

اس کے علاوہ کمیٹی کے سامنے ایسی پانچ ایف آر بھی پیش کی گئیں جن کا مضمون ایک جیسا ہے اور پانچوں ایف آئی آر میں ایک ہی طرح کی کہانی بنا کر پولیس نے مخصوص طبقہ کے افراد کے خلاف کیس بنا دیا ہے۔ اس سلسلہ میں بھی افسران کو تحقیق کرنے اور پولیس سے وضاحت طلب کرنے کی ہدایت دی گئی'۔

متاثرین کو ملنے والے معاوضہ کے سلسلہ میں بھی افسران سے معلومات اور تفصیل طلب کی گئیں، جس میں کئی چونکانے والے حقائق سامنے آئے۔

تفصیلات کے مطابق متاثرین کے کیسوں کی باریکی سے چھان بین سے یہ روشنی میں آیا کہ متاثرین تک معاوضہ کی صحیح تقسیم نہیں ہوپائی ہے۔ کمیٹی کے سامنے پینل پر کئی ایسے کیس رکھے گئے جن میں متاثرین کا نقصان 8/10 لاکھ کا ہوا ہے لیکن انھیں معاوضہ کے نام پر 25/30 ہزار روپئے دے دیے گئے ہیں جبکہ ایک کیس ایسا بھی سامنے آیا جس میں نقصان 90ہزار کا ہے جبکہ معاوضہ 8 لاکھ دیدیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے
دہلی فساد: پولیس نے چارج شیٹ داخل کی

چیئرمین امانت اللہ خان نے اس سلسلہ میں افسران کو ایسے کیسوں کی باریکی سے تحقیقات کرنے کی ہدایت دی۔ اس کے علاوہ آج میٹنگ کے دوران افسران کے سامنے چیئرمین امانت اللہ خان کی ہدایت پر کئی ایسے ویڈیو چلائے گئے، جن میں فسادیوں کے نہ صرف چہرے صاف نظر آرہے ہیں بلکہ وہ اپنا اقبال جرم کرتے ہوئے بھی سنے جاسکتے ہیں۔

ایسا ہی ایک ویڈیو فیضان نامی شخص کا چلایا گیا جس میں پولیس والے فیضان کو نہ صرف بری طرح سے پیٹ رہے ہیں بلکہ انکے چہرے بھی صاف نظر آرہے ہیں، غور طلب ہے کہ بعد میں فیضان کی موت واقع ہوگئی تھی۔

چیئرمین امانت اللہ خان نے ایسے واقعات کے بارے میں پرنسپل ہوم سیکریٹری سے دریافت کیا کہ ان لوگوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟

آج میٹنگ کے دوران کمیٹی کے سامنے تین ایسے فساد متاثرین کو پیش کیا گیا جن کی پولیس نے آج تک ایف آئی آر نہیں کی، جن میں سے ایک ماں بیٹی ہیں، جن کے گھر میں لوٹ کی واردات ہوگئی تھی مگر ان کی ایف آئی مختلف وجوہات بتا کر آج تک نہیں لکھی گئی اور ان کی ذہنی حالت بگڑتی جارہی ہے اور وہ خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا 'آج بھی ماحول کو خراب کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور بے جا نعرہ بازی اور فقرہ کشی ہوتی ہے'۔

اس کے علاوہ ایک محمد اشفاق نامی شخص کے بھائی کی فساد میں موت ہوگئی تھی جسکی لاش کئی روز بعد پولیس نے اہل خانہ کے حوالے کی مگر نہ ہی اس کی ایف آئی آر کی گئی اور نہ ہی اسے ابھی تک معاوضہ ملا۔

متاثرین نے کمیٹی کے سامنے اپنی آپ بیتی سنائی، جس پر امانت اللہ خان نے فوراً کارروائی کی ہدایت دی۔ امانت اللہ خان نے یہ چبھتا ہوا سوال بھی افسران سے کیا کہ اگر کسی کی غیر فطری موت ہوئی ہے تو ایف آئی آر اس کی بھی ہوتی ہے، پھر اس سکندر نامی شخص کی ایف آئی آر کیوں پولیس نے درج نہیں کی؟، جس کی فساد کے دوران مشتبہ حالت میں لاش ملی اور میڈیکل رپورٹ میں اسے بری طرح زدوکوب کئے جانے کا ذکر ہے۔

یہ بھی پڑھیے
بابری مسجد انہدامی کیس: 30 ستمبر کو فیصلہ سنائے گی عدالت

چیئرمین امانت اللہ خان نے تینوں متاثرین کے کیس کا معائنہ کرنے اور کارروائی کرنے کے احکامات دیے۔گزشتہ میٹنگ کے دوران کمیٹی کے علم میں ایسے 15کیس لائے گئے تھے، جن کی ایف آئی آر پینڈنگ تھی، چیئرمین امانت اللہ خان نے ایسے سبھی 15 کیسوں کے بارے میں پرنسپل سیکریٹری ہوم کو ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپ ان کیسوں کی ایف آئی آر کو یقینی بنائیں ساتھ ہی سیلم پور سے رکن اسمبلی اور کمیٹی کے ممبر عبد الرحمن کو ایسے تمام متاثرین سے ملاقات کرنے اور صحیح معلومات مہیا کرانے کی ہدایت دی تھی۔

آج میٹنگ کے دوران کمیٹی کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ 12کیسوں میں ایف آئی درج کرلی گئی ہے جبکہ کل 3 کیس باقی ہیں۔

غور طلب ہے کہ دہلی اسمبلی کی اقلیتی فلاحی کمیٹی نے گزشتہ میٹنگ میں افسران سے دہلی فسادات سے متعلق تمام ایف آئی آر مہیا کرانے کے لئے کہا تھا مگر پولیس نے ابھی تک کمیٹی کو ایف آئی آر مہیا نہیں کرائی ہیں۔

چیئرمین امانت اللہ خان نے کہا 'ہم نے پرنسپل سیکریٹری ہوم کے توسط سے ایف آئی آر طلب کی ہیں مگر پولیس ایف آئی آر کی کاپیاں مہیا کرانے میں آنا کانی سے کام لے رہی ہے'۔

دہلی کے شمال مشرقی علاقہ میں سال کے شروع میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں متاثرین کو حکومت کی جانب سے معاوضہ ملنے کے سلسلہ میں آج دہلی اسمبلی کی اقلیتی فلاحی کمیٹی کی ایک بار پھر میٹنگ منعقد کی گئی۔
آج ہونے والی میٹنگ میں شمال مشرقی دہلی کے تینوں ایس ڈی ایم، شاہدرہ کے ایس ڈی ایم، شاہدرہ اور نارتھ ایسٹ کے ضلع مجسٹریٹ، پرنسپل ہوم سکریٹری، ڈویزنل کمشنر محکمہ روینیو و دیگر متعلقہ افسران کو طلب کیا گیا تھا، جن سے کمیٹی کے چیئرمین امانت اللہ خان و دیگر ممبران نے فساد متاثرین کو مہیا کرائے گئے معاوضہ کے بارے میں سوالات کئے اور متاثرین کو حکومت کی جانب سے اب تک ملنے والے معاوضہ کی بابت معلومات دریافت کی گئیں۔

اقلیتی فلاحی کمیٹی کی آج ہونے والی میٹنگ میں چیئرمین امانت اللہ خان کے علاوہ مصطفی آباد سے رکن اسمبلی حاجی یونس، سیلم پور سے رکن اسمبلی عبد الرحمن، رکن اسمبلی جرنیل سنگھ، دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ذاکر خان، دہلی وقف بورڈ کے سیکشن آفیسر محفوظ محمد کے علاوہ دیگر افسران نے شرکت کی۔

میٹنگ میں پرنسپل ہوم سیکریٹری سے دریافت کیا گیا کہ پولیس کمیٹی کو ایف آئی آر مہیا کیوں نہیں کرارہی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایف آئی آر پبلک ڈومین میں ہونی چاہیے، پھر پولیس سپریم کورٹ کی حکم عدولی کیوں کر رہی ہے؟۔

چیئرمین امانت اللہ خان نے اس سلسلہ میں ہوم سیکریٹری کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ پولیس سے اس سلسلہ میں وضاحت طلب کی جائے۔

اس کے علاوہ کمیٹی کے سامنے ایسی پانچ ایف آر بھی پیش کی گئیں جن کا مضمون ایک جیسا ہے اور پانچوں ایف آئی آر میں ایک ہی طرح کی کہانی بنا کر پولیس نے مخصوص طبقہ کے افراد کے خلاف کیس بنا دیا ہے۔ اس سلسلہ میں بھی افسران کو تحقیق کرنے اور پولیس سے وضاحت طلب کرنے کی ہدایت دی گئی'۔

متاثرین کو ملنے والے معاوضہ کے سلسلہ میں بھی افسران سے معلومات اور تفصیل طلب کی گئیں، جس میں کئی چونکانے والے حقائق سامنے آئے۔

تفصیلات کے مطابق متاثرین کے کیسوں کی باریکی سے چھان بین سے یہ روشنی میں آیا کہ متاثرین تک معاوضہ کی صحیح تقسیم نہیں ہوپائی ہے۔ کمیٹی کے سامنے پینل پر کئی ایسے کیس رکھے گئے جن میں متاثرین کا نقصان 8/10 لاکھ کا ہوا ہے لیکن انھیں معاوضہ کے نام پر 25/30 ہزار روپئے دے دیے گئے ہیں جبکہ ایک کیس ایسا بھی سامنے آیا جس میں نقصان 90ہزار کا ہے جبکہ معاوضہ 8 لاکھ دیدیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے
دہلی فساد: پولیس نے چارج شیٹ داخل کی

چیئرمین امانت اللہ خان نے اس سلسلہ میں افسران کو ایسے کیسوں کی باریکی سے تحقیقات کرنے کی ہدایت دی۔ اس کے علاوہ آج میٹنگ کے دوران افسران کے سامنے چیئرمین امانت اللہ خان کی ہدایت پر کئی ایسے ویڈیو چلائے گئے، جن میں فسادیوں کے نہ صرف چہرے صاف نظر آرہے ہیں بلکہ وہ اپنا اقبال جرم کرتے ہوئے بھی سنے جاسکتے ہیں۔

ایسا ہی ایک ویڈیو فیضان نامی شخص کا چلایا گیا جس میں پولیس والے فیضان کو نہ صرف بری طرح سے پیٹ رہے ہیں بلکہ انکے چہرے بھی صاف نظر آرہے ہیں، غور طلب ہے کہ بعد میں فیضان کی موت واقع ہوگئی تھی۔

چیئرمین امانت اللہ خان نے ایسے واقعات کے بارے میں پرنسپل ہوم سیکریٹری سے دریافت کیا کہ ان لوگوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟

آج میٹنگ کے دوران کمیٹی کے سامنے تین ایسے فساد متاثرین کو پیش کیا گیا جن کی پولیس نے آج تک ایف آئی آر نہیں کی، جن میں سے ایک ماں بیٹی ہیں، جن کے گھر میں لوٹ کی واردات ہوگئی تھی مگر ان کی ایف آئی مختلف وجوہات بتا کر آج تک نہیں لکھی گئی اور ان کی ذہنی حالت بگڑتی جارہی ہے اور وہ خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا 'آج بھی ماحول کو خراب کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور بے جا نعرہ بازی اور فقرہ کشی ہوتی ہے'۔

اس کے علاوہ ایک محمد اشفاق نامی شخص کے بھائی کی فساد میں موت ہوگئی تھی جسکی لاش کئی روز بعد پولیس نے اہل خانہ کے حوالے کی مگر نہ ہی اس کی ایف آئی آر کی گئی اور نہ ہی اسے ابھی تک معاوضہ ملا۔

متاثرین نے کمیٹی کے سامنے اپنی آپ بیتی سنائی، جس پر امانت اللہ خان نے فوراً کارروائی کی ہدایت دی۔ امانت اللہ خان نے یہ چبھتا ہوا سوال بھی افسران سے کیا کہ اگر کسی کی غیر فطری موت ہوئی ہے تو ایف آئی آر اس کی بھی ہوتی ہے، پھر اس سکندر نامی شخص کی ایف آئی آر کیوں پولیس نے درج نہیں کی؟، جس کی فساد کے دوران مشتبہ حالت میں لاش ملی اور میڈیکل رپورٹ میں اسے بری طرح زدوکوب کئے جانے کا ذکر ہے۔

یہ بھی پڑھیے
بابری مسجد انہدامی کیس: 30 ستمبر کو فیصلہ سنائے گی عدالت

چیئرمین امانت اللہ خان نے تینوں متاثرین کے کیس کا معائنہ کرنے اور کارروائی کرنے کے احکامات دیے۔گزشتہ میٹنگ کے دوران کمیٹی کے علم میں ایسے 15کیس لائے گئے تھے، جن کی ایف آئی آر پینڈنگ تھی، چیئرمین امانت اللہ خان نے ایسے سبھی 15 کیسوں کے بارے میں پرنسپل سیکریٹری ہوم کو ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپ ان کیسوں کی ایف آئی آر کو یقینی بنائیں ساتھ ہی سیلم پور سے رکن اسمبلی اور کمیٹی کے ممبر عبد الرحمن کو ایسے تمام متاثرین سے ملاقات کرنے اور صحیح معلومات مہیا کرانے کی ہدایت دی تھی۔

آج میٹنگ کے دوران کمیٹی کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ 12کیسوں میں ایف آئی درج کرلی گئی ہے جبکہ کل 3 کیس باقی ہیں۔

غور طلب ہے کہ دہلی اسمبلی کی اقلیتی فلاحی کمیٹی نے گزشتہ میٹنگ میں افسران سے دہلی فسادات سے متعلق تمام ایف آئی آر مہیا کرانے کے لئے کہا تھا مگر پولیس نے ابھی تک کمیٹی کو ایف آئی آر مہیا نہیں کرائی ہیں۔

چیئرمین امانت اللہ خان نے کہا 'ہم نے پرنسپل سیکریٹری ہوم کے توسط سے ایف آئی آر طلب کی ہیں مگر پولیس ایف آئی آر کی کاپیاں مہیا کرانے میں آنا کانی سے کام لے رہی ہے'۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.