دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس منوج کمار اوہری کی بینچ نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ سماعت کے بعد حکم دیا ہے کہ ظفرالاسلام خان کے خلاف 22 جون تک کوئی بھی کارروائی نہ کی جائے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اس تعلق سے ڈاکٹر ظفرالاسلام کے وکیل ورندا گروور نے کہا کہ ڈاکٹر خان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے اور دفعہ 153 اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ مارچ مہینے تک ملک بھر میں کافی لوگوں نے نفرت انگیز بیانات دیے تھے اور چند مقامات پر کورونا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مسلم طبقہ کے لوگوں پر حملہ بھی کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد دہلی ہائی کورٹ میں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کو دہلی اقلیتی کمیشن کے سربراہ کے عہدے سے ہٹانے کے لیے دو عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ پہلی عرضی ایڈووکیٹ آلوک شریواستو اور دوسری عرضی منورنجن کمار نامی شخص نے دائر کی ہیں۔
دہلی پولیس نے ڈاکٹر ظفر الاسلام پر دو فرقوں میں عدم رواداری کو بڑھاوا دینے، مساوات اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کے تصور کے ساتھ کام کرنے کے تحت ایف آئی آردرج کی گئی ہے۔
ان عرضیوں پر سماعت کے دوران ہائی کورٹ کو یہ بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹر خان کو ایل جی کی جانب سے وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرکے یہ پوچھا گیا ہے کہ ان کے بیانوں کے سبب انھیں کمیشن کے سربراہ کے عہدے سے کیوں نہ برطرف کیا جائے؟