ETV Bharat / state

Delhi High Court Reprimands Police on Riots: ملزم اہلکاروں کی پہچان نہیں کرنے پر دہلی پولیس کی سرزنش

author img

By

Published : Jan 13, 2022, 10:55 AM IST

Updated : Jan 13, 2022, 12:35 PM IST

دہلی ہائی کورٹ نے ایک بار پھر دہلی پولیس کی سرزنش کی ہے۔ فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فساد کے دوران سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں پولیس اہلکار مسلم نوجوانوں کو پیٹ پیٹ قومی ترانہ گانے پر مجبور کر رہے تھے۔ Viral Video Delhi Riots ان نوجوانوں میں سے ایک موت ہوگئی۔ پولیس کی طرف سے اب تک ملزم اہلکاروں کی پہچان نہیں کیے جانے پر کورٹ نے شدید سرزنش کی Delhi High Court Reprimands Police۔

Delhi High Court Reprimands Police on Riots
Delhi High Court Reprimands Police on Riots

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے شمال مشرقی دہلی میں فساد Delhi High Court on Delhi Riots کے دوران مسلم نوجوانوں کو پیٹ پیٹ کر قومی گیت گانے پر مجبور کرنے کے معاملے میں ملزم اہلکاروں کی پہچان میں ہو رہی تاخیر پر دہلی پولیس کی شدید سرزنش کی ہے۔ دہلی پولیس کو عدالت کی طرف سے یہ پہلی سرزنش نہیں ہے بلکہ اس سے قبل عدالت فساد کے وقت پولیس کی غیر ذمہ دارانہ کاروائیوں پر سرزنش کر چکی ہے۔

فرووی 2020 ماہ میں ہوئے دہلی فساد پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس مکتا گپتا Justice Mukta Gupta Delhi High Court کی بنچ نے دہلی پولیس سے نوجوان کی پٹائی والے دن پولیس ملازمین کی تعیناتی کا ریکارڈ چیک کرنے سے متعلق بھی سوال کیے۔ اس معاملے کی اگلی سماعت 22 فروری کو ہوگی۔

سماعت کے دوران جانچ افسران نے کہا کہ دہلی فساد Delhi Riots کے دوران ہزاروں پولیس ملازمین کی تعیناتی کی گئی تھی۔ اس پر کورٹ نے کہا تھا کہ ہم 20 ہزار پولیس ملازمین کی تعیناتی مان لیتے ہیں لیکن 20 ہزار پولیس ملازمین کی اونچائی، وزن اور بناوٹ تو الگ الگ ہوگی۔ اگر آپ اس بنیاد پر پتہ کریں گے تو اس میں کتنا وقت لگے گا۔

سنوائی کے دوران جانچ آفیسرز نے کہا کہ اس نے ایک کانسٹیبل رویندر Constable Ravinder کی پہنچان کی ہے جس کے موبائل میں ویڈیو ملا تھا۔ اس سے کئی بار پوچھ تاچھ کی گئی، لیکن اس نے ویڈیو شوٹ کرنے سے انکار کر دیا۔ اب ویڈیو فورینسنگ لیب میں بھیجا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ویڈیو کو دہلی کے سبھی پولیس تھانے میں بھیجا گیا ہے لیکن کوئی سراغ ہاتھ نہیں لگا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل وندا گروور نے کہا کہ پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج CCTV Footage Delhi Riots اور جیوتی نگر تھانے کے ریکارڈ کو جمع نہیں کیا ہے۔ اس پر جانچ آفیسرز نے کہا کہ واردات والے دن جیوتی نگر تھانہ Jyoti Nagar Police Station Delhi کے سی سی ٹی وی کیمرے کام نہیں کر رہے تھے۔ تب کورٹ نے اپنے سبھی سوالوں کے جواب داخل کرنے کا حکم دیا۔ پہلے کی سماعت کے دوران دہلی پولیس Delhi Police on Riots نے کہا تھا کہ وہ مسلم نوجوانوں کی پیٹائی کرنے والے پولیس ملازمین کی پہنچان نہیں کر سکی ہے۔


دہلی پولیس نے کہا تھا کہ اس تعلق سے چار ویڈیو کلپ میں تین ویڈیو دور سے بنائے گئے ہیں اور وہ کم میگا پکسل والے موبائل سے بنائے گئے تھے۔ چوتھے ویڈیو میں جن پولیس ملازمین کو مسلم نوجوانوں کو مارتے دیکھا گیا ہے اس میں پولیس ملازمین نے ہیلمنٹ پہن رکھا تھا۔ اس کی وجہ سے ان کا چہرہ پہنچانا نہیں جاسکا۔

دہلی پولیس نے کہا تھا کہ چاروں ویڈیو کلپ کو فورنسنگ لیب بھیجا گیا ہے جس ویڈیو کی کوالیٹی بہتر کی جا سکے۔

دہلی پولیس کے مطابق اس تفتیش کے لئے 170 پولیس ملازمین سے پوچھ گچھ کی جا چکی ہے۔ یہ سبھی پولیس ملازمین 24 فروری 2020 کو جنوبی مشرقی دہلی میں تعینات تھے۔ 24 اور 25 فروری 2020 کو جیوتی نگر تھانے میں تعینات ایس ایچ او نے بھی پولیس ملازمین سے پوچھ گچھ کی ہے۔ مقتول نوجوان فیضان کے علاقہ 20 کی دیکھ بھال کے لئے مقرر کیے گئے سب انسپکٹر سے بھی پوچھ تاچھ کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں:



دراصل دہلی فسادات کے دوران سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں کچھ پولیس ملازمین پانچ مسلم نوجوانوں کو گھیرے ہوئے ہیں اور اسے قومی گیت 'جن گن من' گانے کے لئے دباؤ بنا رہے ہیں، نوجوان زمین پر ہے اور پولیس والے ان کے ساتھ مارپیٹ کر رہے ہیں۔ اس ویڈیو میں جن پانچ مسلم نوجوان شامل ہیں ان میں سے فیضان کو دہلی پولیس نے 24 فروری 2020 گرفتار کرنے کا دعوی کیا اور 25 فروری کو نازک حالت میں چھوڑا تھا۔ جس کے بعد گھر والوں نے انہیں ایل این جے پی ہسپتال میں بھرتی کرایا جہاں 26 فروری 2020 کو اس کی موت ہوگئی Faizan Dies During Delhi Riots۔

درخواست گزار کے مطابق 26-25 فروری کی درمیانی رات کو فیضان نے اپنی ماں قسماتن کو بتایا تھا کہ اسے پولیس نے ہراساں کیا تھا اور بُری طرح پیٹائی کی گئی تھی۔ فیضان کو جیوتی نگر پولیس نے غیر قانونی طریقے سے حراست میں رکھا تھا، اسے علاج مہیا کرانے سے انکار کر دیا تھا جس سے اس کی حالت خراب ہونے لگی اور جب پولیس والوں کو یہ احساس لگا کہ وہ نہیں بچے گا تو اسے چھوڑا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:


درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں قتل کا کیس درج کیا گیا، لیکن جانچ میں پولیس ملازمین کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں اس معاملے کی جانچ کورٹ کی نگرانی میں کی جائے۔ اس کے لئے آزادانہ اور غیر جانبدار ٹیم تشکیل دی جائے، جس میں فیضان کی پولیس حراست میں ہوئی موت کی جانچ کریں۔

دہلی میں اس وقت فساد بھڑک اٹھا جب مرکزی حکومت کی طرف سے لائے گئے متنازعہ قانون شہریت ترمیمی قانون Citizenship Amendment Act، این آر سی کے خلاف مسلمان سراپا احتجاج تھے اور بی جے پی کے لیڈ پولیس کی موجودگی میں دھمکی دے رہے تھے۔

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے شمال مشرقی دہلی میں فساد Delhi High Court on Delhi Riots کے دوران مسلم نوجوانوں کو پیٹ پیٹ کر قومی گیت گانے پر مجبور کرنے کے معاملے میں ملزم اہلکاروں کی پہچان میں ہو رہی تاخیر پر دہلی پولیس کی شدید سرزنش کی ہے۔ دہلی پولیس کو عدالت کی طرف سے یہ پہلی سرزنش نہیں ہے بلکہ اس سے قبل عدالت فساد کے وقت پولیس کی غیر ذمہ دارانہ کاروائیوں پر سرزنش کر چکی ہے۔

فرووی 2020 ماہ میں ہوئے دہلی فساد پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس مکتا گپتا Justice Mukta Gupta Delhi High Court کی بنچ نے دہلی پولیس سے نوجوان کی پٹائی والے دن پولیس ملازمین کی تعیناتی کا ریکارڈ چیک کرنے سے متعلق بھی سوال کیے۔ اس معاملے کی اگلی سماعت 22 فروری کو ہوگی۔

سماعت کے دوران جانچ افسران نے کہا کہ دہلی فساد Delhi Riots کے دوران ہزاروں پولیس ملازمین کی تعیناتی کی گئی تھی۔ اس پر کورٹ نے کہا تھا کہ ہم 20 ہزار پولیس ملازمین کی تعیناتی مان لیتے ہیں لیکن 20 ہزار پولیس ملازمین کی اونچائی، وزن اور بناوٹ تو الگ الگ ہوگی۔ اگر آپ اس بنیاد پر پتہ کریں گے تو اس میں کتنا وقت لگے گا۔

سنوائی کے دوران جانچ آفیسرز نے کہا کہ اس نے ایک کانسٹیبل رویندر Constable Ravinder کی پہنچان کی ہے جس کے موبائل میں ویڈیو ملا تھا۔ اس سے کئی بار پوچھ تاچھ کی گئی، لیکن اس نے ویڈیو شوٹ کرنے سے انکار کر دیا۔ اب ویڈیو فورینسنگ لیب میں بھیجا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ویڈیو کو دہلی کے سبھی پولیس تھانے میں بھیجا گیا ہے لیکن کوئی سراغ ہاتھ نہیں لگا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل وندا گروور نے کہا کہ پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج CCTV Footage Delhi Riots اور جیوتی نگر تھانے کے ریکارڈ کو جمع نہیں کیا ہے۔ اس پر جانچ آفیسرز نے کہا کہ واردات والے دن جیوتی نگر تھانہ Jyoti Nagar Police Station Delhi کے سی سی ٹی وی کیمرے کام نہیں کر رہے تھے۔ تب کورٹ نے اپنے سبھی سوالوں کے جواب داخل کرنے کا حکم دیا۔ پہلے کی سماعت کے دوران دہلی پولیس Delhi Police on Riots نے کہا تھا کہ وہ مسلم نوجوانوں کی پیٹائی کرنے والے پولیس ملازمین کی پہنچان نہیں کر سکی ہے۔


دہلی پولیس نے کہا تھا کہ اس تعلق سے چار ویڈیو کلپ میں تین ویڈیو دور سے بنائے گئے ہیں اور وہ کم میگا پکسل والے موبائل سے بنائے گئے تھے۔ چوتھے ویڈیو میں جن پولیس ملازمین کو مسلم نوجوانوں کو مارتے دیکھا گیا ہے اس میں پولیس ملازمین نے ہیلمنٹ پہن رکھا تھا۔ اس کی وجہ سے ان کا چہرہ پہنچانا نہیں جاسکا۔

دہلی پولیس نے کہا تھا کہ چاروں ویڈیو کلپ کو فورنسنگ لیب بھیجا گیا ہے جس ویڈیو کی کوالیٹی بہتر کی جا سکے۔

دہلی پولیس کے مطابق اس تفتیش کے لئے 170 پولیس ملازمین سے پوچھ گچھ کی جا چکی ہے۔ یہ سبھی پولیس ملازمین 24 فروری 2020 کو جنوبی مشرقی دہلی میں تعینات تھے۔ 24 اور 25 فروری 2020 کو جیوتی نگر تھانے میں تعینات ایس ایچ او نے بھی پولیس ملازمین سے پوچھ گچھ کی ہے۔ مقتول نوجوان فیضان کے علاقہ 20 کی دیکھ بھال کے لئے مقرر کیے گئے سب انسپکٹر سے بھی پوچھ تاچھ کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں:



دراصل دہلی فسادات کے دوران سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں کچھ پولیس ملازمین پانچ مسلم نوجوانوں کو گھیرے ہوئے ہیں اور اسے قومی گیت 'جن گن من' گانے کے لئے دباؤ بنا رہے ہیں، نوجوان زمین پر ہے اور پولیس والے ان کے ساتھ مارپیٹ کر رہے ہیں۔ اس ویڈیو میں جن پانچ مسلم نوجوان شامل ہیں ان میں سے فیضان کو دہلی پولیس نے 24 فروری 2020 گرفتار کرنے کا دعوی کیا اور 25 فروری کو نازک حالت میں چھوڑا تھا۔ جس کے بعد گھر والوں نے انہیں ایل این جے پی ہسپتال میں بھرتی کرایا جہاں 26 فروری 2020 کو اس کی موت ہوگئی Faizan Dies During Delhi Riots۔

درخواست گزار کے مطابق 26-25 فروری کی درمیانی رات کو فیضان نے اپنی ماں قسماتن کو بتایا تھا کہ اسے پولیس نے ہراساں کیا تھا اور بُری طرح پیٹائی کی گئی تھی۔ فیضان کو جیوتی نگر پولیس نے غیر قانونی طریقے سے حراست میں رکھا تھا، اسے علاج مہیا کرانے سے انکار کر دیا تھا جس سے اس کی حالت خراب ہونے لگی اور جب پولیس والوں کو یہ احساس لگا کہ وہ نہیں بچے گا تو اسے چھوڑا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:


درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں قتل کا کیس درج کیا گیا، لیکن جانچ میں پولیس ملازمین کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں اس معاملے کی جانچ کورٹ کی نگرانی میں کی جائے۔ اس کے لئے آزادانہ اور غیر جانبدار ٹیم تشکیل دی جائے، جس میں فیضان کی پولیس حراست میں ہوئی موت کی جانچ کریں۔

دہلی میں اس وقت فساد بھڑک اٹھا جب مرکزی حکومت کی طرف سے لائے گئے متنازعہ قانون شہریت ترمیمی قانون Citizenship Amendment Act، این آر سی کے خلاف مسلمان سراپا احتجاج تھے اور بی جے پی کے لیڈ پولیس کی موجودگی میں دھمکی دے رہے تھے۔

Last Updated : Jan 13, 2022, 12:35 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.