ETV Bharat / state

دہلی میں سیاسی جماعتوں کی جدوجہد - کانگریس

عام آدمی پارٹی، کانگریس اور بی جے پی کی اس صورتحال سے فائدہ اٹھا رہی ہے کہ دونوں جماعتیں کیجریوال کا متبادل پیش کرنے میں ناکام ہیں،جبکہ انہیں اس بات کی امید ہے کہ گزشتہ 5برسوں کے دوران انہوں نے دہلی میں جو ترقی کا جال بچھایا ہے اس سے وہ اس بار بھی میدان مار لے گیں۔

دہلی میں سیاسی جماعتوں کی جدوجہد
دہلی میں سیاسی جماعتوں کی جدوجہد
author img

By

Published : Jan 23, 2020, 5:15 PM IST

Updated : Feb 18, 2020, 3:19 AM IST

دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کی دارالحکومت دہلی کی آبادی2کروڑ ہے، جو دنیا کے 140 ملکوں کی آبادی سے زیادہ ہے۔انتخابی کمیشن نے جب 70نشستوں پر مشتمل دہلی اسمبلی کیلئے انتخابی شیڈول کا آئندہ ماہ 8 تاریخ کا اعلان کے بعد دہلی کا سیاسی ماحول دلچسپ بن گیا۔
انتخابی کمیشن نے انتخاب کیلئے13 ہزار750 انتخابی مراکز کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے 90 ہزار پولنگ عملے کو انتخابات منعقد کرنے کیلئے تعینات کیا ہے۔
دہلی میں مجموعی طور پر رائے دہندگان کی تعداد ایک کروڑ 47 لاکھ ہے۔پہلی مرتبہ80 سال سے زیادہ عمر کے بزرگ اور معذور شہریوں کو پوسٹل بیلٹ بکسوں سے رائے دہندگی کا حق دیا گیا ہے۔
اس بار کے انتخابات کی خصوصیت یہ ہے کہ جب تک نامزدگی کا عمل مکمل ہوتا ہے تب تک لوگ اپنے ناموں کا انداراج کراسکتے ہیں، جبکہ ووٹر پرچیوں پر کیو ڈی کوڑ چسپاں کیا جائے گا۔
دہلی اسمبلی میں اب تک 6بار ہوئے انتخابات میں بی جے پی نے پہلی مرتبہ کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی کے تین مرتبہ انتخابات میں فتح کی ہیٹرک مارنے کے بعد کانگریس نے3 مرتبہ شیلا دکشت کی سربراہی میں انتخابات میں جیت کے جھنڈے گاڑیں ہیں۔
سال نومبر2012 میں کیجریوال کی سربراہی میں عام آدمی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں جماعتوں کے دباؤ کا خاتمہ ہوا ہے۔سال 2013 اور2015میں متواتر عام آدمی پارٹی کی جیت کے بعد دہلی کے رائے دہندگان کیلئے عام آدمی پارٹی پسندیدہ پارٹی کے طور پر ابھر گئی۔
سال2015میں ہوئے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے67 نشستیں حاصل کی اور مجموعی ووٹنگ کے54.3فیصد شرح سے ووٹ حاصل کیں۔تاہم سال2017کے بلدیاتی انتخابات(مونسپل الیکشن) میں پارٹی کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی جبکہ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں صرف18 فیصد ووت شرح کی حصولیابی نے اس جماعت کی حریف پارٹیوں میں نئی امیدیں پیدا کردی ہے۔
سال 2014کے لوک سبھا انتخابات میں مودی لہر نے دہلی میں تمام7 نشستوں پر قبضہ جمالیا،جبکہ سال 2015 اسمبلی انتخابات میں تین نشستوں پر کم اسکور نے بی جے پی کو دل برداشتہ کردیا۔
جہاں بی جے پی نے گزشتہ پارلیمانی انتخابات کے دوران نا قابل یقین کامیابی حاصل کی،لیکن اسمبلی انتخابات میں رائے دہندگان کے مزاج میں تبدیلی بھی نظر آئی۔وہیں کانگریس کو اس بات کی فکر ہے کہ وہ انتخابی مقابلے سے ہی باہر نہ ہوجائے۔
کیجروال نے عام آدمی پارٹی کو یہ نعرہ دیا تھا کہ ہم پہلے درجے کے شہری ہیں، تاہم ہم تیسری درجے کی حکومت کے ہاتھوں مصائب کے شکار ہیں۔
انہوں نے جھاڑوں کو انتخابی نشان کے طور پر منتخب کیا،اور یہ خیال پیش کیا کہ وہ حکومتی حلقوں و مشینری سے بدعنوانی کو صاف کریں گے،جس کے ساتھ ہی انہوں نے سال 2013کے انتخابات میں میدان مار لیا۔

کانگریس اس بات پر ششدر رہ گئی کہ ان کے کھاتے میں صرف 28نشستیں ہی آئی اور مجموعی رائے دہندگی میں29.5 فیصد کی شرح سے ہی ووٹ ملے۔
تاہم کانگریس کی طرف سے بیرون حمایت سے کیجریوال کی جماعت برسر اقتدار میں تو آئی، تاہم جن لوک پال بل پر مرکز کے ساتھ عدم اتفاق کے بعد کیجروال نے حکومت کو ہی خیر آباد کیا۔
سال 2015میں لوگوں نے کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کو کافی اکثریت سے دہلی کے مسند پر بٹھایا۔لیکن وہیں پنجاپ کے علاوہ دیگر ریاستوں میں عام آدمی پارٹی کا ووٹ شرح 'نوٹا' سے بھی کم تھا۔جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کی قومی سطح پر موجودگی نہ کے برابر ہے۔

گزشتہ برس جولائی کے پہلے ہفتے میں سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے عام آدمی پارٹی کے معاملے کی حمایت کی اور دہلی کے لیفٹنٹ گورنر کو ہدایت دی کہ وہ کونسل آف منسٹروں یا وزارتی کونسل کی مشاورت کا تمام معاملات سوائے امن و قانون اور پولیس کے تعاقب کریں اور اختیارات کے حدود کی وضاحت کی جائے۔
بی جے پی کا الزام ہے کہ عام آدمی پارٹی کے دور اقتدار میں کوئی بھی ترقی نہیں ہوئی، جبکہ کانگریس کو اس بات شکوہ گلہ ہے کہ شیلا دکشت کے زمانے میں جو ترقی کی گئی تھی وہ مستحکم نہ رہی۔
عام آدمی پارٹی تاہم بااعتماد طور پر اپنے اس نعرے پر' اچھے بتائے پانچ سال لگے رہو کیجریوال' پر پیش رفت کررہی ہے۔
بی جے پی نے گزشتہ اسمبلی انتخابات کے دوران مقبول ترین اور معروف آئی پی ایس افسر کرن بیدی کو وزیر اعلیٰ امیدوار نامزد کیا، تاہم لوگ اس سے متاثر نہیں ہوئے۔تاہم اس جماعت کو اس بات کی امید ہے کہ اگر پہلے سے پارٹی کے 34فیصد ووٹ شرح میں مزید7 فیصد کا اضافہ کیا جائے تو پارٹی جیت درج کرسکتی ہے۔
عام آدمی پارٹی، کانگریس اور بی جے پی کی اس صورتحال سے فائدہ اٹھا رہی ہے کہ دونوں جماعتیں کیجریوال کا متبادل پیش کرنے میں ناکام ہیں،جبکہ انہیں اس بات کی امید ہے کہ گزشتہ 5برسوں کے دوران انہوں نے دہلی میں جو ترقی کا جال بچھایا ہے اس سے وہ اس بار بھی میدان مار لے گیں۔
سال 2015کے انتخابات کے دوران کانگریس اپنا کھاتا کھولنے میں بھی ناکام رہی تھی اور مجموعی ووٹنگ میں سے9.7فیصد ووت شرح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی،تاہم اس بار انہیں بھی جیت کا یقین ہے۔
پارٹی یہ جواز دیں رہی کہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے دوران کانگریس دہلی میں7میں سے5 نشستوں پر اس کی دوسری پوزیشن تھی۔ کیجریوال حکومت کی کلیدی پہل تعلیم،صحت، بجلی، پینے کے پانی، رسل و رسائل اور خواتین کی حفاظت اس ماحول میں مقبول ترین ہوگئی ہے،جبکہ اصل مقابلہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان ہی لگ رہا ہے۔
بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دہلی میں 1731بغیر اجازت کالنیوں کو پٹہ دیا،جبکہ عام آدمی پارٹی ان کالنیوں میں بنیادی ڈھناچہ فراہم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔
آئی ائے این ایس سی ووٹر کی طرف سے جائزے میں عام آدمی پارٹی کی جیت کی پیشن گوئی کی ہے۔اصل مقابلہ مودی کی طرف سے لوگوں کو جمع کرنے کی صلاحت اور کیجریوال حکومت کی کارکردگی کے درمیان ہوگی۔
مختلف ریاستوں میں بی جے پی کی حالیہ شکست کے بعد اس بات کو دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ دہلی دربار اپنے نام کرنے کیلئے بی جے پی کون سے حکمت عملی مرتب کرتی ہے۔

دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کی دارالحکومت دہلی کی آبادی2کروڑ ہے، جو دنیا کے 140 ملکوں کی آبادی سے زیادہ ہے۔انتخابی کمیشن نے جب 70نشستوں پر مشتمل دہلی اسمبلی کیلئے انتخابی شیڈول کا آئندہ ماہ 8 تاریخ کا اعلان کے بعد دہلی کا سیاسی ماحول دلچسپ بن گیا۔
انتخابی کمیشن نے انتخاب کیلئے13 ہزار750 انتخابی مراکز کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے 90 ہزار پولنگ عملے کو انتخابات منعقد کرنے کیلئے تعینات کیا ہے۔
دہلی میں مجموعی طور پر رائے دہندگان کی تعداد ایک کروڑ 47 لاکھ ہے۔پہلی مرتبہ80 سال سے زیادہ عمر کے بزرگ اور معذور شہریوں کو پوسٹل بیلٹ بکسوں سے رائے دہندگی کا حق دیا گیا ہے۔
اس بار کے انتخابات کی خصوصیت یہ ہے کہ جب تک نامزدگی کا عمل مکمل ہوتا ہے تب تک لوگ اپنے ناموں کا انداراج کراسکتے ہیں، جبکہ ووٹر پرچیوں پر کیو ڈی کوڑ چسپاں کیا جائے گا۔
دہلی اسمبلی میں اب تک 6بار ہوئے انتخابات میں بی جے پی نے پہلی مرتبہ کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی کے تین مرتبہ انتخابات میں فتح کی ہیٹرک مارنے کے بعد کانگریس نے3 مرتبہ شیلا دکشت کی سربراہی میں انتخابات میں جیت کے جھنڈے گاڑیں ہیں۔
سال نومبر2012 میں کیجریوال کی سربراہی میں عام آدمی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں جماعتوں کے دباؤ کا خاتمہ ہوا ہے۔سال 2013 اور2015میں متواتر عام آدمی پارٹی کی جیت کے بعد دہلی کے رائے دہندگان کیلئے عام آدمی پارٹی پسندیدہ پارٹی کے طور پر ابھر گئی۔
سال2015میں ہوئے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے67 نشستیں حاصل کی اور مجموعی ووٹنگ کے54.3فیصد شرح سے ووٹ حاصل کیں۔تاہم سال2017کے بلدیاتی انتخابات(مونسپل الیکشن) میں پارٹی کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی جبکہ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں صرف18 فیصد ووت شرح کی حصولیابی نے اس جماعت کی حریف پارٹیوں میں نئی امیدیں پیدا کردی ہے۔
سال 2014کے لوک سبھا انتخابات میں مودی لہر نے دہلی میں تمام7 نشستوں پر قبضہ جمالیا،جبکہ سال 2015 اسمبلی انتخابات میں تین نشستوں پر کم اسکور نے بی جے پی کو دل برداشتہ کردیا۔
جہاں بی جے پی نے گزشتہ پارلیمانی انتخابات کے دوران نا قابل یقین کامیابی حاصل کی،لیکن اسمبلی انتخابات میں رائے دہندگان کے مزاج میں تبدیلی بھی نظر آئی۔وہیں کانگریس کو اس بات کی فکر ہے کہ وہ انتخابی مقابلے سے ہی باہر نہ ہوجائے۔
کیجروال نے عام آدمی پارٹی کو یہ نعرہ دیا تھا کہ ہم پہلے درجے کے شہری ہیں، تاہم ہم تیسری درجے کی حکومت کے ہاتھوں مصائب کے شکار ہیں۔
انہوں نے جھاڑوں کو انتخابی نشان کے طور پر منتخب کیا،اور یہ خیال پیش کیا کہ وہ حکومتی حلقوں و مشینری سے بدعنوانی کو صاف کریں گے،جس کے ساتھ ہی انہوں نے سال 2013کے انتخابات میں میدان مار لیا۔

کانگریس اس بات پر ششدر رہ گئی کہ ان کے کھاتے میں صرف 28نشستیں ہی آئی اور مجموعی رائے دہندگی میں29.5 فیصد کی شرح سے ہی ووٹ ملے۔
تاہم کانگریس کی طرف سے بیرون حمایت سے کیجریوال کی جماعت برسر اقتدار میں تو آئی، تاہم جن لوک پال بل پر مرکز کے ساتھ عدم اتفاق کے بعد کیجروال نے حکومت کو ہی خیر آباد کیا۔
سال 2015میں لوگوں نے کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کو کافی اکثریت سے دہلی کے مسند پر بٹھایا۔لیکن وہیں پنجاپ کے علاوہ دیگر ریاستوں میں عام آدمی پارٹی کا ووٹ شرح 'نوٹا' سے بھی کم تھا۔جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کی قومی سطح پر موجودگی نہ کے برابر ہے۔

گزشتہ برس جولائی کے پہلے ہفتے میں سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے عام آدمی پارٹی کے معاملے کی حمایت کی اور دہلی کے لیفٹنٹ گورنر کو ہدایت دی کہ وہ کونسل آف منسٹروں یا وزارتی کونسل کی مشاورت کا تمام معاملات سوائے امن و قانون اور پولیس کے تعاقب کریں اور اختیارات کے حدود کی وضاحت کی جائے۔
بی جے پی کا الزام ہے کہ عام آدمی پارٹی کے دور اقتدار میں کوئی بھی ترقی نہیں ہوئی، جبکہ کانگریس کو اس بات شکوہ گلہ ہے کہ شیلا دکشت کے زمانے میں جو ترقی کی گئی تھی وہ مستحکم نہ رہی۔
عام آدمی پارٹی تاہم بااعتماد طور پر اپنے اس نعرے پر' اچھے بتائے پانچ سال لگے رہو کیجریوال' پر پیش رفت کررہی ہے۔
بی جے پی نے گزشتہ اسمبلی انتخابات کے دوران مقبول ترین اور معروف آئی پی ایس افسر کرن بیدی کو وزیر اعلیٰ امیدوار نامزد کیا، تاہم لوگ اس سے متاثر نہیں ہوئے۔تاہم اس جماعت کو اس بات کی امید ہے کہ اگر پہلے سے پارٹی کے 34فیصد ووٹ شرح میں مزید7 فیصد کا اضافہ کیا جائے تو پارٹی جیت درج کرسکتی ہے۔
عام آدمی پارٹی، کانگریس اور بی جے پی کی اس صورتحال سے فائدہ اٹھا رہی ہے کہ دونوں جماعتیں کیجریوال کا متبادل پیش کرنے میں ناکام ہیں،جبکہ انہیں اس بات کی امید ہے کہ گزشتہ 5برسوں کے دوران انہوں نے دہلی میں جو ترقی کا جال بچھایا ہے اس سے وہ اس بار بھی میدان مار لے گیں۔
سال 2015کے انتخابات کے دوران کانگریس اپنا کھاتا کھولنے میں بھی ناکام رہی تھی اور مجموعی ووٹنگ میں سے9.7فیصد ووت شرح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی،تاہم اس بار انہیں بھی جیت کا یقین ہے۔
پارٹی یہ جواز دیں رہی کہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے دوران کانگریس دہلی میں7میں سے5 نشستوں پر اس کی دوسری پوزیشن تھی۔ کیجریوال حکومت کی کلیدی پہل تعلیم،صحت، بجلی، پینے کے پانی، رسل و رسائل اور خواتین کی حفاظت اس ماحول میں مقبول ترین ہوگئی ہے،جبکہ اصل مقابلہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان ہی لگ رہا ہے۔
بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دہلی میں 1731بغیر اجازت کالنیوں کو پٹہ دیا،جبکہ عام آدمی پارٹی ان کالنیوں میں بنیادی ڈھناچہ فراہم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔
آئی ائے این ایس سی ووٹر کی طرف سے جائزے میں عام آدمی پارٹی کی جیت کی پیشن گوئی کی ہے۔اصل مقابلہ مودی کی طرف سے لوگوں کو جمع کرنے کی صلاحت اور کیجریوال حکومت کی کارکردگی کے درمیان ہوگی۔
مختلف ریاستوں میں بی جے پی کی حالیہ شکست کے بعد اس بات کو دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ دہلی دربار اپنے نام کرنے کیلئے بی جے پی کون سے حکمت عملی مرتب کرتی ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Feb 18, 2020, 3:19 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.