پانی والی درگاہ اجمیر شہر کے اجمیری دروازے کے خارجی راستہ پر واقع ہے۔ اس درگاہ میں تہہ خانے کے اندر حافظ سعد اللہ نقش بندی اور ان کے صاحبزادے کی قبریں موجود ہیں جبکہ چبوترے پر بھی قبریں ہیں جس میں ایک قبر پر حافظ صاحب کا نام تو لکھا ہوا ہے دوسری قبر پر کوئی کتبہ نہیں ہے۔
تاریخ کے جانکار ڈاکٹر فیروز دہلوی نے اپنے ایک مقالہ میں لکھا ہے کہ چبوترے کی بندش سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر ایک وسیع گنبد رہا ہوگا، جو اب باقی نہیں رہا البتہ چبوترہ باقی رہ گیا۔ عام طور پر قبریں تہ خانے کے اندر نہیں بنائی جاتیں۔ تہ خانے میں وہی قبریں بنائی جاتی ہیں، جن پر گنبد ہوتا ہے اور گنبد میں اس کا بالائی حصہ تعویز بنا دیا جاتا ہے اور اندر تہ خانے میں اصل قبر رہتی ہے۔
مورخ فیروز دہلوی لکھتے ہیں کہ حافظ سعداللہ دہلی کے باشندے تھے۔ ان کے خاندان کے بیشتر افراد اجمیری گیٹ سے نزدیک محلہ نیاریاں میں رہا کرتے تھے، جو تقسیم ہند کے دوران پاکستان چلے گئے۔ جہاں ان کا مزار ہے وہیں ان کی خانقاہ بھی تھی جہاں وہ قرآن و حدیث کا درس دیا کرتے تھے۔
عام طور پر اولیاء کرام اور بزرگان دین شہر سے باہر اپنی خانقاہیں بنایا کرتے تھے، تاکہ آبادی سے باہر رہ کر وہ سکون سے عبادت و ریاضت میں مشغول رہ سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: سبھی کو ساتھ لے کر چلنا اور تعلیمی شعبے میں کام کرنا ہماری ترجیح: احمد ولی فیصل رحمانی
مزار کے ذمہ دار پیر رئیس نے بتایا کہ اس مزار کے تہہ خانے میں تقریباً 100 برس قبل پانی جمع ہوا تھا حالانکہ اب تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ پانی کہاں سے آیا، البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت بخار کی بیماری زور پکڑ رہی تھی جب مریدین کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے اس پانی کے استعمال سے شفا حاصل کی.