ETV Bharat / state

دہلی فسادات میں زیر حراست موت کا انکشاف

دہلی فسادات کے دوران ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں پولیس کی وردی میں ہجوم فیضان اور اس کے ساتھیوں کو پیٹتے ہوئے قومی ترانہ پڑھوارہے تھے اور نازیبا الفاظ بھی کہہ رہے تھے۔

author img

By

Published : Mar 13, 2020, 3:06 PM IST

دہلی فسادات میں زیر حراست موت کا انکشاف
دہلی فسادات میں زیر حراست موت کا انکشاف

پولیس کی مبینہ پٹائی سے ہلاک ہونے والے فیضان کے معاملہ میں زیر حراست موت کا پہلو سامنے آرہا ہے، سنہ 2002 کے بدنام زمانہ مسلم مخالف فسادات اور ہاشم پورہ قتل عام کے مقدمات کی پیروی کر چکیں مشہور وکیل ورندا گرور فیضان کے اہل خانہ سے ملاقات کے دوران اس نتیجہ پر پہنچیں کہ جس طرح فیضان کی موت ہوئی ہے اس میں زیر حراست قتل کا پہلو نظر آرہا ہے۔

دہلی فسادات میں زیر حراست موت کا انکشاف، ویڈیو

اس مار پیٹ میں فیضان شدید زخمی ہوا جس کے بعد اس کی موت ہوگئی تھی، دہلی اقلیتی کمیشن نے بھی اس پہلو کی تصدیق کرتے ہوئے قانونی لڑائی لڑنے کے اشارے دئے ہیں۔

فیضان کی موت کو دو ہفتے سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے، اس کی 61 سالہ ماں قسمتن کردم پوری کی گلی نمبر 7 میں واقع ایک چھوٹے سے کمرہ میں کمبل اوڑھے بیٹھی رہتی ہیں اور خبر گیری کرنے کی غرض سے ملاقات کرنے آنے والوں سے ملتی ہیں۔

کئی دنوں سے رضا کار وکیلوں کا ایک گروپ ان سے ملاقات کے لیے پہنچ رہا ہے، ان میں ایک نام مشہور وکیل ورندا گرور کا بھی ہے، جنہوں نے گجرات کے بدنام زمانہ مسلم مخالف فسادات اور ہاشم پورہ کے مقدمات میں پیروی کی تھی۔

ورندا گرور نے فیضان کی ماں سے بات چیت کے دوران یہ اندازہ لگایا کہ فیضان کی موت کا معاملہ زیر حراست موت کا ہے، قسمتن اپنے بیٹے کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے بار بار جذباتی ہوجاتی ہیں لیکن انصاف کی لڑائی لڑنے سے خوف بھی کھا رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 'میں تو یہ لڑائی لڑ لوں لیکن میرے اور بھی بچے ہیں، کہیں پولیس ان کو بھی مارنے لگے گی تو میں کیا کروں گی۔

وکیلوں سے بات کے دوران قسمتن کے لب پر یہ خوف بار بار آرہا تھا اور ان کے ساتھ موجود ان کے بچے بھی پولیس کے خلاف مقدمہ کرنے سے ہچکچا رہے ہیں، ان کا صاف کہنا ہے کہ پولیس سے کیسے لڑیں گے؟

دہلی اقلیتی کمیشن کے سربراہ ظفر الاسلام خان نے قسمتن کو ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ پولیس ان کے اہل خانہ کے ساتھ کوئی زیادتی بھی نہیں کرے گی، جس پر وہ بذات خود نظر رکھیں گے۔

ظفر الاسلام خان کی ان باتوں سے انہیں تھوڑا بہت اطمینان ضرور ہوا، لیکن ان کی نظروں میں ابھی بھی خوف کا دکھائی دے رہا ہے۔

معروف وکیل ورندا گرور نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ کو آف کیمرہ بتایا کہ 'اس طرح کے واقعات میں متاثرین کا خوف زدہ ہونا طبعی ہے لیکن ان کا ڈر ختم ہونا ضروری ہے تاکہ یہ انصاف کی لڑائی لڑ سکیں۔

قسمتن، جو خود پولیس اسٹیشن پہنچ کر شدید زخمی فیضان کو گھر تک لے کر آئی اور پھر ہسپتال لے کر گئی تھیں، کا صاف کہنا ہے کہ جب وہ پولیس اسٹیشن پہنچی تو فیضان کی حالت کافی خراب تھی، وہ چلنے سے بھی قاصر تھا اس کا علاج تک نہیں ہونے دیا گیا، 24 فروری کو اسے مارا گیا اور اس کی جی ٹی بی ہسپتال میں مختصر مرہم پٹی کرائی گئی اور پھر مقامی تھانہ نے اسے حراست میں رکھا۔

انہوں نے بتایا کہ تقریباً 36 گھنٹوں تک فیضان کو حراست میں رکھا گیا اور پھر 26 فروری کو دیر رات 11 بجے اسے رہا کردیا گیا۔

فیضان کی ماں قسمتن کا کہنا ہے کہ 'جب وہ بیٹے کو گھر لے کر آئیں تو وہ کراہ رہا تھا، لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا، پورا جسم سیاہ پڑ چکا تھا، انہوں نے گھر میں رکھی ایک دوا سے اس کی مالش کی اور فجر کے بعد اسے ایل این جے پی ہسپتال لے گئی جہاں اس کی موت ہوگئی۔

قسمتن کے مطابق اگر پولیس اس کو حراست میں نہیں رکھتی اور اس کا علاج کراتی تو شاید وہ بچ جاتا۔

فسادات متاثرہ علاقوں میں رضاکارانہ طور پر قانونی مدد پہنچا رہے وکلاء فیضان کی موت کو زیر حراست موت کا معاملہ قرار دے رہے ہیں اور اس تعلق سے عدالتی لڑائی کی تیاری کر رہے ہیں۔

پولیس کی مبینہ پٹائی سے ہلاک ہونے والے فیضان کے معاملہ میں زیر حراست موت کا پہلو سامنے آرہا ہے، سنہ 2002 کے بدنام زمانہ مسلم مخالف فسادات اور ہاشم پورہ قتل عام کے مقدمات کی پیروی کر چکیں مشہور وکیل ورندا گرور فیضان کے اہل خانہ سے ملاقات کے دوران اس نتیجہ پر پہنچیں کہ جس طرح فیضان کی موت ہوئی ہے اس میں زیر حراست قتل کا پہلو نظر آرہا ہے۔

دہلی فسادات میں زیر حراست موت کا انکشاف، ویڈیو

اس مار پیٹ میں فیضان شدید زخمی ہوا جس کے بعد اس کی موت ہوگئی تھی، دہلی اقلیتی کمیشن نے بھی اس پہلو کی تصدیق کرتے ہوئے قانونی لڑائی لڑنے کے اشارے دئے ہیں۔

فیضان کی موت کو دو ہفتے سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے، اس کی 61 سالہ ماں قسمتن کردم پوری کی گلی نمبر 7 میں واقع ایک چھوٹے سے کمرہ میں کمبل اوڑھے بیٹھی رہتی ہیں اور خبر گیری کرنے کی غرض سے ملاقات کرنے آنے والوں سے ملتی ہیں۔

کئی دنوں سے رضا کار وکیلوں کا ایک گروپ ان سے ملاقات کے لیے پہنچ رہا ہے، ان میں ایک نام مشہور وکیل ورندا گرور کا بھی ہے، جنہوں نے گجرات کے بدنام زمانہ مسلم مخالف فسادات اور ہاشم پورہ کے مقدمات میں پیروی کی تھی۔

ورندا گرور نے فیضان کی ماں سے بات چیت کے دوران یہ اندازہ لگایا کہ فیضان کی موت کا معاملہ زیر حراست موت کا ہے، قسمتن اپنے بیٹے کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے بار بار جذباتی ہوجاتی ہیں لیکن انصاف کی لڑائی لڑنے سے خوف بھی کھا رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 'میں تو یہ لڑائی لڑ لوں لیکن میرے اور بھی بچے ہیں، کہیں پولیس ان کو بھی مارنے لگے گی تو میں کیا کروں گی۔

وکیلوں سے بات کے دوران قسمتن کے لب پر یہ خوف بار بار آرہا تھا اور ان کے ساتھ موجود ان کے بچے بھی پولیس کے خلاف مقدمہ کرنے سے ہچکچا رہے ہیں، ان کا صاف کہنا ہے کہ پولیس سے کیسے لڑیں گے؟

دہلی اقلیتی کمیشن کے سربراہ ظفر الاسلام خان نے قسمتن کو ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ پولیس ان کے اہل خانہ کے ساتھ کوئی زیادتی بھی نہیں کرے گی، جس پر وہ بذات خود نظر رکھیں گے۔

ظفر الاسلام خان کی ان باتوں سے انہیں تھوڑا بہت اطمینان ضرور ہوا، لیکن ان کی نظروں میں ابھی بھی خوف کا دکھائی دے رہا ہے۔

معروف وکیل ورندا گرور نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ کو آف کیمرہ بتایا کہ 'اس طرح کے واقعات میں متاثرین کا خوف زدہ ہونا طبعی ہے لیکن ان کا ڈر ختم ہونا ضروری ہے تاکہ یہ انصاف کی لڑائی لڑ سکیں۔

قسمتن، جو خود پولیس اسٹیشن پہنچ کر شدید زخمی فیضان کو گھر تک لے کر آئی اور پھر ہسپتال لے کر گئی تھیں، کا صاف کہنا ہے کہ جب وہ پولیس اسٹیشن پہنچی تو فیضان کی حالت کافی خراب تھی، وہ چلنے سے بھی قاصر تھا اس کا علاج تک نہیں ہونے دیا گیا، 24 فروری کو اسے مارا گیا اور اس کی جی ٹی بی ہسپتال میں مختصر مرہم پٹی کرائی گئی اور پھر مقامی تھانہ نے اسے حراست میں رکھا۔

انہوں نے بتایا کہ تقریباً 36 گھنٹوں تک فیضان کو حراست میں رکھا گیا اور پھر 26 فروری کو دیر رات 11 بجے اسے رہا کردیا گیا۔

فیضان کی ماں قسمتن کا کہنا ہے کہ 'جب وہ بیٹے کو گھر لے کر آئیں تو وہ کراہ رہا تھا، لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا، پورا جسم سیاہ پڑ چکا تھا، انہوں نے گھر میں رکھی ایک دوا سے اس کی مالش کی اور فجر کے بعد اسے ایل این جے پی ہسپتال لے گئی جہاں اس کی موت ہوگئی۔

قسمتن کے مطابق اگر پولیس اس کو حراست میں نہیں رکھتی اور اس کا علاج کراتی تو شاید وہ بچ جاتا۔

فسادات متاثرہ علاقوں میں رضاکارانہ طور پر قانونی مدد پہنچا رہے وکلاء فیضان کی موت کو زیر حراست موت کا معاملہ قرار دے رہے ہیں اور اس تعلق سے عدالتی لڑائی کی تیاری کر رہے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.