اس بدعنوانی کی وجہ سے کھاتہ داروں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے جبکہ صدمہ کی وجہ سے 4 کھاتہ داروں کی موت ہوچکی ہے۔ اس سلسلہ میں آر بی آئی نے عوام کو تیقن دیا ہے کہ بھارت کا بینکنگ سسٹم محفوظ اور مستحکم ہے۔ عوام کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
موجودہ تناظر میں بینکنگ سسٹم کو مستحکم بناتے ہوئے عوام کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ معاشی نظام کو بہتر بناسکے۔
کوآپریٹیو بنک کو موجودہ حالات میں کئی چیلنجس کا سامنا ہے جبکہ یہ بینکز آبادی اس طبقہ کو جو بینکوں سے جڑا ہوا نہیں ہے قرضہ جات فراہم کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔
بھارت میں کوآپریٹیو تحریک کی شروعات 19 ویں صدی میں ہوئی جس کا مقصد دیہاتوں سے ظالم سود خوروں کا خاتمہ تھا۔
بنیادی طور پر کوآپریٹیو بینکوں کا مقصد علاقہ واری سطح پر غریب طبقات کو چھوٹے ادارے اور کاروبار شروع کرنے کےلیے قرض فراہم کرنا ہے۔
زیادہ شرح سود حاصل کرنے کی غرض سے کھاتہ دار ان بینکوں کی جانب متوجہ ہوتے ہیں جبکہ فی الحال ہمارے ملک میں ایک ہزار 551 کوآپریٹیو بینک اور 96 ہزار 612 اس کے ذیلی مراکز کام کررہے ہیں۔
دیہی کوآپریٹیو ادارے دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں مالی خدمات انجام دیتے ہیں اور اس کے ذریعہ شہری علاقوں میں بھی قرض فراہم کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ مجمودی بینکنگ شعبہ میں کوآپریٹیو بینکوں کی ترقی کو خاطرخواہ مقام نہیں ملا ہے جبکہ 2017 میں شیڈولڈ کمرشیل بینکز کے صرف 11 فیصد حصص تھے اور 05-2004 میں اس کے 19 فیصد اثاثوں بتائے گئے تھے۔
آر بی آئی کی جانب سے بھارت میں بینک کاری کے رجحانات پر 2017 میں جاری کردہ رپورٹ میں کوآپریٹیو بینکوں کی موجودہ حیثیت کو بیان گیا گیا۔ دیہی علاقوں میں کوآپریٹیو بینکوں کی کارکردگی اس کے اثاثوں اور منافع کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے جبکہ ریاستی کوآپریٹیو بینکوں میں این پی اے میں 2 تناسب اور منافع کے لحاظ سے بہتر آئی ہے۔
زراعت شعبہ میں کوآپریٹیو اداروں کی طویل مدتی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔ شہری کوآپریٹیو اداروں کے بارے میں آر بی آئی کے اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ ان اداروں کے اثاثہ جات میں بہتری آئی ہے لیکن مجموعی منافع میں کوئی غیرمعمولی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ جملہ ایک ہزار 551 بنکوں میں 26 ریگولیٹرس کے تحت کام کر رہے تھے اور 46 میں منفی اثرات دیکھے گئے۔
شہری علاقوں میں واقع کوآپریٹیو بینکوں اسکامس ہوئے ہیں۔ اس کی ایک مثال 2001 میں گجرات کے مادھوپورا کوآپریٹیو بینک میں ہوا گھوٹالا ہے۔ بینک کی جانب سے اسٹاک بروکر کیتن پاریکھ کو بے تحاشہ قرض دیا گیا تھا۔
حالیہ دنوں میں ہوئے پی ایم سی اسکام کی تین اہم وجہ بتائی گئیں۔
1) بھاری مالی بے ضابطگیاں
2) بینک میں اندرونی سسٹم کی ناکامی
3) حالات کی پردہ پوشی
یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ پی ایم سی بنک نے اپنے اثاثہ جات کا 73 فیصد سرمایہ ایچ ڈی آئی ایل میں مشغول کیا تھا۔ اس بنک نے دو ہزار سے زائد اکاونٹس کو آر بی آئی کی نظر سے چھپانے کی کوشش کی تھی جبکہ یہ ایک بڑا اسکام تھا۔
آر بی آئی نے کوآپریٹیو شعبہ میں بدعنوانی میں اضافہ کی وجہ سے نئے لائسنس دینا بند کردیئے ہیں جبکہ آر بی آئی نے 1993 تا 2004 تک لائسنسنگ کی ایک فعال پالیسی پر عمل پیرا تھا جس کی وجہ سے ان اداروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔
اس شعبہ میں کی جارہی پیشرفت کی وجہ سے کوآپریٹیو بینکوں کو ایک اچھا موقع فراہم ہورہا کہ وہ عمدہ طور پر فریم ورک بنائے کیونکہ بھارت میں عام آدمی کے بچت کو تحفظ فراہم کرنے کا کوئی مضبوط نظام نہیں ہے۔
مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے کہا کہ 'اگر اس نظام کو بہتر بنانے کےلیے قانون سازی کی ضرورت ہوگی تو حکومت ترمیم کےلیے تیار ہے۔ انہوں نے آر بی آئی اور وزارت کے عہدیداروں کو کوآپریٹیو شعبہ کا جائزہ لیتے ہوئے تفصیلی رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت دی۔'
حکومت کی جانب سے اس سلسلہ میں مناسب اقدامات کئے جاتے ہیں تو کوآپریٹیو شعبہ کےلیے بہتر ہوگا اور عوام کا کوآپریٹیو شعبہ پر اعتماد بڑھے گا جس کی وجہ سے آر بی آئی اور حکومت دونوں کو فائدہ ہوگا۔