سی اودئے بھاسکر نے 5 اپریل کو یہ مضمون تحریر کیا جبکہ اس وقت ملک میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 3500 سے بھی زیادہ ہوگئی۔
ایک اندازہ کے مطابق تیس فیصد متاثرین کا تعلق تبلیغی جماعت سے بتایا جارہا ہے جن کو نظام الدین مرکز سے جوڑا جارہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ نظام الدین مرکز میں ایک دینی اجتماع میں شرکت کرکے کئی ارکان ملک کے دیگر علاقوں کو واپس چلے گئے۔ ملک میں اس وقت سے سے زیادہ کورونا وائرس کے معاملات تمل ناڈو، دہلی، آندھراپردیش، تلنگانہ، اترپردیش، راجستھان، جموں و کشمیر، آسام، کرناٹک، انڈومان نکوبار، اتراکھنڈ، ہریانہ، مہاراشٹرا، ہماچل پردیش، کیرالا، اروناچل پردیش اور جھاکنڈ میں سامنے آئے ہیں۔
محکمہ صحت کے مطابق اجتماع میں شرکت کرنےوالے سبھی افراد کو ان کے سفر سے متعلق، صحت سے متعلق علامات اور دیگر ضروری تفصیلات سے حکام کو واقف کروانا چاہئے تاکہ کورونا وائرس کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکے۔
سی اودئے بھاسکر نے کہا کہ واقع کے بعد ٹیلی ویژن اور سوشیل میڈیا پر تبلیغی جماعت کو لیکر مباحث شروع ہوگئے جس کو مسلم مخالف بنادیا گیا اور مسلم دشمنی کے جذبات کو ابھارا گیا جسی وجہ سے بھارت میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہ کہ ایسے حالات میں جب ملک کورونا سے جنگ لڑ رہاہے متعصب میڈیا نے اس وبا کو مسلمانوں سے جوڑ کر ملک میں فرقہ وارانہ ماحول کو ہوا دے رہا ہے جبکہ بیماری کو مذہب سے جوڑا بالکل غلط ہوگا۔
سی اودئے بھاسکر نے کہا کہ سوشیل میڈیا پر غلط بیانی سے کام لیا جارہا ہے اور غیرغلط خبریں پھیلائی جارہی ہے جو قومی یکجہتی کےلیے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔ ایسے حالات میں حکومت کوسخت رخ اپناتے ہوئے غلط خبریں پھیلانے والوں اور متعصب میڈیا کے خلاف سخت کاروائی کرناچاہئے۔
انہوں نے کہا کہ صحت ایمرجنسی کے دوران آر ایس ایس اور بی جے پی کو بھی ملک میں امن و امان کی برقراری کےلیے کام کرنا چاہئے اور ہندوؤں کے جذبات بھڑکانے سےپرہیزکرنا چاہئے۔