دارالحکومت دہلی می میدان گڑھی میں واقع اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی میں اردو کے معروف فکشن نگار حسین الحق کی رحلت پر نئی دہلی کے اسکول آف ہیومنٹیز میں ڈسپلن آف اردو کے زیر اہتمام ایک تعزیتی نشست کا انعقادکیا گیا۔Condolence Meeting in Memory of Hussain-ul-Haq
اس موقع پر ڈسپلن آف اردو کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر لیاقت علی نے کہا کہ حسین الحق نے اردو فکشن کے میدان میں انتہائی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ Urdu Fiction writer Hussain-ul-Haq Contribution ان کے انتقال سے اردو زبان و ادب کا بہت زیادہ خسارہ ہوا ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔
پروفیسر احمد علی جوہر نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حسین الحق عہد حاضر میں اردو فکشن کے ایک اہم ستون تھے، ان کے انتقال سے اردو فکشن کا ایک ستون منہدم ہوگیا۔ پروفیسر شاکر علی صدیقی نے کہا کہ حسین الحق اردو کے انتہائی ممتاز فکشن نگار تھے۔ انہیں اردو افسانوں میں اظہار کی تیز ترین دھار، نئے نئے الفاظ کے انتخاب اور جملوں کی تخلیقی سطح کی وجہ سے اپنے ہم عصروں میں انفرادیت حاصل ہے۔
پروفیسر دھرم ویر نے اپنے تاثراتی اظہار میں کہا کہ حسین الحق اردو فکشن کا ایک روشن باب تھے۔ ان کے انتقال سے اردو فکشن کا جو گہرا خسارہ ہوا ہے ، جس کی تلافی مشکل ہے۔
ڈاکٹر عبد الحفیظ نے اپنے اظہار تاثر میں کہا کہ اردو کے ممتاز فکشن نگار حسین الحق کہانی کار کے ساتھ ساتھ ایک معلم، مفکر، فلسفی، تاریخ داں، متصوّف، ماہرنفسیات، مصلح اور عالمی ادبیات کے عارف بھی تھے۔ ان کی شخصیت کے یہ پہلو ان کے ناولوں اور افسانوں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ڈاکٹر قدسیہ نصیر نے اپنے اظہار تاثر میں کہا کہ حسین الحق نے فکشن کے رائج سانچوں کو توڑ کر اظہار کے نئے رویوں کو فروغ دیا ہے۔ ناول فرات اس کی واضح مثال ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ حسین الحق مرحوم کے تقریباً 2 سو افسانے، ڈیڑھ سو مضامین، سات افسانوی مجموعے، 3 عہدساز ناول اور چار نثری کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔