بالکل ویسے ہی جیسے دور قدیم میں غاروں پر مصور جانوروں کی تصویروں کے ذریعے اپنا مدعا بیان کرتا رہا ہے ویسے ہی آج کے دور میں بھی مصور اپنے خیالات کو فن پاروں میں بیان کرنے کے لیے متعدد اشیا کا استعمال کر رہا ہے۔
ایسی ہی ایک طالبہ ہیں فرح جمال جنہوں نے جامعہ ملیہ سلامیہ سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے، وہ لوہا، پیتل، چٹائی، کاغذ اور شیشہ وغیرہ پر رنگوں کا استعمال کرتے ہوئے طبیعت کے مطابق مصوری کے ذریعہ اسے کینوس میں سمونے کی کوشش کرتی ہیں۔
فرح دوران سکول سے ہی مصوری کیا کرتی تھیں جب وہ 10 ویں جماعت میں پہنچیں تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ ان کی مختلف نصابی کتابیں تصویری پیکر تراشی کا نمونہ ہوا کرتی تھی۔
سکول کے ابتدائی دنوں میں فرح نے اپنی کتابوں کو پینسل اور رنگوں سے داغدار کرنا شروع کر دیا تھا، تبھی سکول سے شکایت آئی کہ بچی پڑھائی میں دل لگانے کے بجائے فضول کاموں میں وقت ضائع کر رہی ہے۔
جس کے بعد والدین نے اسے بہت سمجھایا مگر نصیحت پر عمل کرنے کے بجائے فرح لکیر اور رنگوں کی دنیا میں ہی مست رہتی اور اسی کی بدولت وہ آج ایک فنکار ہیں۔
فرح جب فن مصوری سے اسلامی خطاطی میں داخل ہوئی تو ذہن کی پاکیزگی کینوس کی شائستگی کا روپ اختیار کر آیت الکرسی، سورہ ناس، قل ہو اللہ شریف کے ساتھ ساتھ قرآن کی دیگر سورۃ کی خطاطی کو اپنا مشغلہ بنایا۔
تصور کو تصویر کرنے والی اور احساس کو عکس بندی کرنے والی یہ فنکار قرآن کی آیات کے ساتھ ساتھ کباڑ سے اپنی مصوری کرتی ہیں۔
موجودہ دور میں کمپیوٹر کا استعمال، ڈیجیٹل کیمرے کا آنا اور بڑے سے بڑے پرنٹ کی سہولت مہیا ہونا فن مصوری میں تبدیلی لا رہا ہے جس کا کچھ ضمیر فروش افراد فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے مصوروں کو اپنا شکار بناتے ہیں۔