روایتی طور پر جب بھی قبر پر نشانی لگائی جاتی ہے تو اس پر نام، تاریخ، پیدائش اور تاریخ وفات سمیت چند مذہبی تحریر ہوتی ہیں، ان تحریروں میں رنگ بھرنے کا کام دہلی گیٹ کے جدید قبرستان میں نظام اختر نامی آرٹسٹ کرتے ہیں۔
کورونا کے اس دور میں جہاں لوگوں کا کاروبار ختم ہو گیا ہے وہیں قبرستان کے باہر کتبہ لکھنے والے آرٹسٹ نظام اختر کے مطابق ان کے کام میں اضافہ ہوا ہے۔
جب سے کورونا کی وبا نے بھارت میں پیر پسارے ہیں تب سے میتوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے حالانکہ نظام اختر کا کہنا ہے کہ کورونا ہی نہیں بلکہ دیگر وجوہات کی وجہ سے انتقال کر جانے والے جنازوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
دور قدیم میں فن خطاطی کا رواج عام ہوا کرتا تھا، بیشتر تاریخی مقامات پر اس کے اثرات ابھی بھی نمایاں ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں سے اردو کی حالت خستہ ہے جس کی مار اس سے وابستہ فنکار بھی جھیل رہے ہیں تاہم کورونا کا یہ دور قبرستان میں کتبہ لکھنے والوں کی آمدنی میں اضافے کا سبب بنا ہے۔
نظام اختر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'ان کے آبا و اجداد دور قدیم سے اس پیشے سے منسلک ہیں، شاہجہانی جامع مسجد پر لکھی قرآنی آیات بھی ان کے اجداد کے ہاتھوں سے لکھی گئی ہیں لیکن اب اس فن کے سہارے زندگی کا گزارا ممکن نہیں اسی لیے اب وہ اپنے بچوں کو دوسرے اور تعلیم سے آراستہ کروانے کی خواہش رکھتے ہیں۔