اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے صدر جمہوریہ نے کہا کہ حالیہ دنوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے کچھ تجارتی صنعتکاروں نے لوگوں کی اعتماد شکنی کی ہے۔ کمپنیاں یا تو لڑکھڑا گئی ہیں یا وہ جمود کا شکار ہو گئی ہیں۔ اس عمل میں عام لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمپنی سکریٹری ایک انتظامی پیشہ ور اور ایک اندرونی تجارتی شراکت دار کا رول ادا کرتا ہے۔ انہیں ایک جوابدہ کاروبار کو فروغ دینا چاہیے اور بڑے سماجی – اقتصادی اہداف کے ساتھ اقتصادی مقاصد کو متوازن کرنا چاہیے۔ انہیں لازمی طور پر یہ یقینی بنانا چاہیے کہ سبھی مستفیدین منافع اور منافع خوری کے درمیان فرق کو سمجھ سکیں اور قانون کی تعمیل کریں۔ انہیں ان امور پر ضرور گفت و شنید کرنی چاہیے جہاں ہمیں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ ماضی کی غلطیوں یا حدود سے نمٹا جا سکے۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ کمپنی حکمرانی کا تصور پیچیدہ ہے لیکن جن اصولوں پر یہ مبنی ہے وہ بالکل واضح ہیں۔ شفافیت، جوابدہی، ایمانداری اور غیرجانبداری اس کے چار ستون ہیں۔ کمپنی سکریٹریوں کو ذمہ دارانہ طریقے سے یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ان اصولوں کو عمل میں کیسے لایا جائے۔
بھارت نے بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کے ایک اہم مرکز کے طور پر اپنے برانڈ ویلیوز کو فروغ دینے کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کیا ہے۔ اس کے لیے ایک اہم سوال یہ ہے کہ کمپنی قوانین کو شفاف طریقے سے کس طرح نافذ کیا جائے گا۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ ایک موثر، غیرجانبدار اور منصفانہ حکمرانی ہماری قوم کی تعمیر کا ایک اہم عنصر ہے۔ اسے پورا کرنے کے لیے کمپنی سکریٹریوں کی اہم ذمہ داری ہے۔ ان کی ایمانداری اور غیرجانبداری ایک منصفانہ سماج کے لیے ہماری عہدبستگی کا تعین کرتی ہے۔