عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا ممبران ، سشیل گپتا ، سنجے سنگھ اور این ڈی گپتا کا یہ کہنا ہے۔ راجیہ سبھا کے تینوں ارکان پارلیمنٹ آج مہاتما گاندھی کے مجسمے کے سامنے کھڑے ہوئے اور مذکورہ کالے قوانین کی مخالفت کی۔
پارلیمنٹ میں پارٹی کے چیف وہپ سشیل گپتا نے کہا کہ یہ قانون دہلی کے عوام کی منتخب کردہ حکومت کو گرا کر بی جے پی اپنا راج قائم کرنا چاہتی ہے۔ جس کے لئے لیفٹیننٹ گورنر ایل جی کو مہرہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہلی میں عوامی مفاد میں مستقل کام کرنے والی کیجریوال حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے بی جے پی کے یہ لوگ پچھلے دروازے سے دہلی کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ اس لئے بھی کیا جارہا ہے کہ ماضی میں انھیں کارپوریشن انتخابات میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ،حالت یہ تھی کہ انہیں بہت سی نشستوں پر صرف 100 ووٹوں سے مطمئن ہونا پڑا۔ یہ دیکھ کر آئندہ کارپوریشن انتخابات سے قبل ان کی حالت پتلی ہونا شروع ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح سے مرکزی حکومت یہ بل لے کر آئی ہے۔ نہ صرف پارلیمنٹ بلکہ دہلی کی سڑکوں پر بھی اس کی مخالفت کی جائے گی۔ واضح رہے کہ وزارت داخلہ کے ذریعہ لوک سبھا میں ایک بل پیش کیا گیا تھا ، جو دہلی کے گورنر کو وسیع اختیارات دیتا ہے۔ اس بل پر دہلی حکومت اور مرکز کے مابین تنازعہ شدت اختیار کرسکتا ہے۔
نئے بل کے مطابق ، دہلی میں حکومت کا مطلب ایل جی ہوگا اور اس کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ قانون ساز اسمبلی کے ذریعے منظور کردہ کسی بھی بل کو منظور کرے۔ صرف یہی نہیں ، بل میں کہا گیا ہے کہ دہلی حکومت کو شہر سے متعلق کوئی فیصلہ لینے سے قبل لیفٹیننٹ گورنر سے مشورہ لینا ہوگا۔ اس کے علاوہ بل میں کہا گیا ہے کہ دہلی حکومت خود کوئی قانون نہیں بنا سکے گی۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ نے 4 جولائی ، 2018 کو اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعہ حکومت کے روزمرہ کے کاموں میں مداخلت نہیں کی جاسکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ لیفٹیننٹ گورنر حکومت کی امداد کرسکتے ہیں اور وزراء کونسل کے مشیر کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ تاہم وہ حکومت کے روز مرہ کے کاموں میں مداخلت نہیں کرسکتا۔
اس بل کو لے کر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے مرکزی حکومت پر نشانہ سادھا ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے بی جے پی پردے کے پیچھے سے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے دیئے فیصلے کے منافی ہے۔