ETV Bharat / state

Batla House Encounter بٹلہ ہاوس انکاونٹر کے ملزم شہزاد نے دہلی کے ایمس میں آخری سانس لی

اطلاعات کے مطابق بٹلہ ہاؤس انکاونٹر میں شامل انسپکٹر شرما کے قتل کے الزام میں تہاڑ جیل میں قید شہزاد احمد کی گذشتہ شب دہلی کے ایمس اسپتال میں علاج کے دوران موت ہوگئی۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق متوفی شہزاد کی میت لینے کے لیے متوفی کے لواحقین اعظم گڑھ سے دہلی کے لیے روانہ ہو گئے ہیں

شہزاد کی موت
شہزاد کی موت
author img

By

Published : Jan 28, 2023, 6:01 PM IST

Updated : Jan 28, 2023, 7:49 PM IST

دارالحکومت دہلی میں واقع ایمس اسپتال سے آئی ایک کے خبر کے مطابق 2008 میں دہلی کے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کیس میں انسپکٹر موہن چند شرما کے قتل کے ملزم شہزاد احمد کی آج علاج کے دوران موت ہوگئی۔ تفصیلات کے مطابق شہزاد کافی عرصے سے علیل تھا۔

بتادیں کہ دہلی کے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کیس میں جمعرات کو عدالت نے شہزاد احمد کو پولیس افسر ایم سی شرما کے قتل کا مجرم قرار دیا تھا، جب کہ پیر کو شہزاد احمد کی سزا پر عدالت میں بحث ہونی تھی۔ انڈین مجاہدین کا رکن شہزاد احمد کئی سال پرانے کیس میں ملزم تھا۔ دوسری طرف 19 ستمبر 2008 کو بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے دو سال بعد فروری 2010 میں اے ٹی ایس کی ٹیم نے شہزاد کو خالص پور گاؤں میں واقع اس کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔

شہزاد احمد کی جانب سے سینئر وکیل ستیش ٹمٹا نے عدالت میں اس کا دفاع کیا تھا وہیں اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ حالانکہ ستیش ٹمٹا کا عدالت میں کہنا تھا کہ جب بٹلا ہاوس انکاونٹر عمل میں آیا تب شہزاد واقعہ کے وقت فلیٹ میں موجود نہیں تھا۔

دہلی ہائی کورٹ کے سامنے شہزاد احمد کے سینئر وکیلوں نے دلیل دی کہ بٹلہ ہاؤس کے فلیٹ L-18 سے فرار ہونے کے لیے صرف ایک سیڑھی تھی جسے دہلی پولیس نے گھیرے میں لے لیا تھا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، تو وہ وہاں سے کیسے بچ سکتا تھا۔ایک ٹرائل کورٹ نے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے دوران پولیس ٹیم کی قیادت کرنے والے انسپکٹر موہن چند شرما کے قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ یہ الزام لگایا گیا کہ دہشت گردوں نے دہلی پولیس کے اہلکاروں پر گولی چلائی۔سینئر ایڈوکیٹ ستیش ٹمٹا نے اس معاملے میں سات عینی شاہدین کے بیانات پڑھ کر سنائے جو انکاؤنٹر کے دوران فلیٹ میں داخل ہونے والے پولس اہلکار تھے۔ الزام تھا کہ شہزاد آپریشن کے دوران موہن چند شرما کو گولی مار کر فلیٹ سے فرار ہو گیا تھا۔

سینئر ایڈوکیٹ ٹمٹا کی طرف سے دلیل دی گئی کہ دہلی پولیس نے علاقے اور عمارت کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ ایک سیڑھی سے صرف ایک داخلی راستہ تھا جسے دہلی پولیس کے مسلح پولیس والوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ فلیٹ سے فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا۔

مجرم کے وکیل نے کچھ تصاویر بھی تیار کیں جن میں L18 سے ملحقہ عمارتوں کو دکھایا گیا تھا۔ مجرم شہزاد کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دیگر عمارتیں لوہے کی گرلز والی اونچی ہیں اور فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

دارالحکومت دہلی میں واقع ایمس اسپتال سے آئی ایک کے خبر کے مطابق 2008 میں دہلی کے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کیس میں انسپکٹر موہن چند شرما کے قتل کے ملزم شہزاد احمد کی آج علاج کے دوران موت ہوگئی۔ تفصیلات کے مطابق شہزاد کافی عرصے سے علیل تھا۔

بتادیں کہ دہلی کے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کیس میں جمعرات کو عدالت نے شہزاد احمد کو پولیس افسر ایم سی شرما کے قتل کا مجرم قرار دیا تھا، جب کہ پیر کو شہزاد احمد کی سزا پر عدالت میں بحث ہونی تھی۔ انڈین مجاہدین کا رکن شہزاد احمد کئی سال پرانے کیس میں ملزم تھا۔ دوسری طرف 19 ستمبر 2008 کو بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے دو سال بعد فروری 2010 میں اے ٹی ایس کی ٹیم نے شہزاد کو خالص پور گاؤں میں واقع اس کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔

شہزاد احمد کی جانب سے سینئر وکیل ستیش ٹمٹا نے عدالت میں اس کا دفاع کیا تھا وہیں اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ حالانکہ ستیش ٹمٹا کا عدالت میں کہنا تھا کہ جب بٹلا ہاوس انکاونٹر عمل میں آیا تب شہزاد واقعہ کے وقت فلیٹ میں موجود نہیں تھا۔

دہلی ہائی کورٹ کے سامنے شہزاد احمد کے سینئر وکیلوں نے دلیل دی کہ بٹلہ ہاؤس کے فلیٹ L-18 سے فرار ہونے کے لیے صرف ایک سیڑھی تھی جسے دہلی پولیس نے گھیرے میں لے لیا تھا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، تو وہ وہاں سے کیسے بچ سکتا تھا۔ایک ٹرائل کورٹ نے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے دوران پولیس ٹیم کی قیادت کرنے والے انسپکٹر موہن چند شرما کے قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ یہ الزام لگایا گیا کہ دہشت گردوں نے دہلی پولیس کے اہلکاروں پر گولی چلائی۔سینئر ایڈوکیٹ ستیش ٹمٹا نے اس معاملے میں سات عینی شاہدین کے بیانات پڑھ کر سنائے جو انکاؤنٹر کے دوران فلیٹ میں داخل ہونے والے پولس اہلکار تھے۔ الزام تھا کہ شہزاد آپریشن کے دوران موہن چند شرما کو گولی مار کر فلیٹ سے فرار ہو گیا تھا۔

سینئر ایڈوکیٹ ٹمٹا کی طرف سے دلیل دی گئی کہ دہلی پولیس نے علاقے اور عمارت کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ ایک سیڑھی سے صرف ایک داخلی راستہ تھا جسے دہلی پولیس کے مسلح پولیس والوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ فلیٹ سے فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا۔

مجرم کے وکیل نے کچھ تصاویر بھی تیار کیں جن میں L18 سے ملحقہ عمارتوں کو دکھایا گیا تھا۔ مجرم شہزاد کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دیگر عمارتیں لوہے کی گرلز والی اونچی ہیں اور فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:Batla House Encounter بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر سوال اب بھی برقرار

Last Updated : Jan 28, 2023, 7:49 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.