سیتا رمن نے لوک سبھا میں دیوالیہ ترمیمی بل 2019 پر تقریباً چار گھنٹے تک چلنے والی بحث کا جواب دیتےہوئے یہ واضح کیا۔ بعدازاں اپوزیشن کی ترمیمات کو نامنظورکرتے ہوئےصوتی ووٹ سے پارلیمنٹ نےبل کو پاس کر دیا۔راجیہ سبھا میں یہ بل 29 جولائی کو پاس ہوچکا ہے۔ اس طرح صدر کے دستخط ہونے کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔
موجودہ قانون میں حل کا عمل 180 دن میں پورا کرنے کا التزام تھا اور اس مدت کی حد کو 90 دن بڑھانے کا اختیار دیا گیا تھا۔ اب وقت کی توسیع سمیت وقت کی حد 270 دن کی بجائے 330 دن کرنے کا التزام کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اس ترمیم کے ذریعے سے اس قانون کے بنیادی حس کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کا مقصد کاروباری دنیا کے مسائل کا حل نکالنا اور کمپنی کو مالی نااہلیت سے نکال کر چلنے لائق بنانا ہے نہ کہ براہ راست اس کے اثاثے کو فروخت کر کے قرض ادا کرنا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کئی مثالیں ہیں جب اس قانون کے بننے کے بعد کمپنیوں کے مسئلے حل ہوگئے اور 2.84 لاکھ کروڑ روپیے کا حل ہوا ہے۔
ڈائریکٹ یا بینکوں کو ہونے والی پونجی کے نقصان کے سلسلے میں پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد کمپنی کو ابھرنے کا موقع دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ این پی اے کے معاملوں میں نمٹنے کے لیے ریزور بینک، دیگر کمرشیل بینک اور حکومت مختلف قوانین کے تحت کام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ایسا ماحول بنانا چاہتی ہے کہ جس میں کاروبار کی ناکامی مصیبت نہ بنے۔ کاروبار کے لیے مؤقر ڈھنگ سے باہر آنے اور نئے حصہ دار کے آنے کا راستہ کھلا رہے تاکہ کمپنی بند نہ ہو اور اہلکاروں کو نوکری کھونے کا خطرہ نہ ہو۔
مرکزی وزیر خزانہ نے کہا کہ نیشنل کمپنی لا ٹریبونل کی استعداد بڑھانے کی سمت میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ٹریبونل کی برانچز (شاخ) ایک سال کے اندر دس سے بڑھا کر 15 کی گئی ہیں۔ اس میں 26 نئے اراکین لائے گئے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کمپنی کے معاملوں کے وکلا ء اور ٹریبونل کے اراکین کے لیے ٹریننگ کے لیے نیشنل لاء یونیورسٹی کی شراکت داری سے کوشیش کی جاری رہی ہیں۔
جیٹ ایئرویز کے تناظر میں ایک سے زیادہ ممالک میں مندرج کمپنیوں کے معاملے کے حل کے بارے میں پوچھے گئے سوالوں پر محترمہ سیتا رمن نے کہا کہ بین الاقوامی امور میں یہ قانون متبادل ہے۔
سرحد پار دیوالیہ کے معاملے میں پرانے قانون کی دفعہ 234 اور 235 دوسرے ملک سے دوطرفہ سمجھوتہ کرنے کا راستہ بتلاتا ہے لیکن حکومت اب نئے قانون میں اس کی توضیع چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس تعلق سے تشکیل ایک کمیٹی نے اپنی رپورٹ دے دی ہے جس کا مطالعہ جاری ہے ۔ جلد ہی مکمل فیصلہ کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ کے جواب کے بعد اپوزیشن کے کچھ اراکین نے ترمیمات پیش کیں جنھیں صوتی ووٹ سے رد کر دیا گیا۔ بعد ازاں یہ بل جس شکل میں راجیہ سبھا سے پاس ہوا تھا اسی شکل میں ایوان نے پاس کر دیا۔