شاہین باغ کے مظاہرین میں ایک اسعد غازی ہیں جو گزشتہ 16 دسمبر سے بلاناغہ مظاہرین کو سخت سردی اور بارش کے موسم میں چائے،سموسے، بسکٹ، پاپے لیکر پہنچ جاتے ہیں اور چار بجے سے چھ بجے تک مظاہرین کے جذبے کو گرم رکھتے ہیں۔
پیشہ سے سول کنٹرکٹر اسعد غازی چاہے بارش ہورہی ہو، چاہے موسم کتنا بھی خراب کیوں نہ ہو، ہر موسم میں مظاہرین کو چائے پلانا نہیں بھولتے، چائے کے ساتھ کبھی سموسے لے جاتے ہیں، تو کبھی بسکٹ لے جاتے ہیں تو کبھی کیک رس لے جاتے ہیں، تو کبھی پاپے لے جاتے ہیں۔ غرض کہ یہ ان کا روز کا معمول ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آخر کس وجہ سے اور کس چیز نے آپ کو تحریک دی کہ آپ اپنا کام چھوڑ کر ہر روز یہاں چلائے بسکٹ لیکر آجاتے ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، شاہین باغ سے اٹھنے والی تحریک نے پورے ملک کو بیدار کردیا ہے۔ یہ تو ہماری چھوٹی کوشش ہے تاکہ مظاہرین سردی کے موسم میں ڈتے رہیں اور بسکٹ، سموسے، کیک رس اور چائے تو ان کو تھوڑی سی تازگی دیتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس تحریک کو کامیاب بنانے میں ہماری تھوڑی سی کوشش ہے، یہ پوچھے جانے پر کہ روزانہ کا کیا خرچ آجاتا ہے تو انہوں نے اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی، لیکن اصرار پر بتایا کہ تقریباً روزانہ 10 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں جو بغیر کسی تشہیر کے روزانہ خرچ کرتے ہیں۔
اسعد غازی نوائے حق رضاکار تنظیم چلاتے ہیں، انہوں نے 150طلبہ کو گود لیا ہے جس کا سارا خرچ یہ تنظیم برداشت کرتی ہے۔ اس کے علاوہ سیکڑوں طلبہ ہیں جس کی فیس وہ خاموشی سے دیتے ہیں۔
اس تنظیم کے کام کے شی متعلق پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ مختلف موضوعات پر آر ٹی آئی داخل کرتے ہیں۔ انہوں نے اس تنظیم کے خاص کارنامہ بتاتے ہوئے کہا کہ 2012 میں برمی مہاجرین یہاں آئے تھے، انہیں بھگانے کی کوشش کی گئی تھی، تو اس تنظیم نے اسے بسانے میں مدد کی تھی اور ہزاروں برمی مہاجرین کے پناہ گزیں کے کارڈ بنوائے تھے۔ کئی کیمپ میں بسایا تھا اور ان لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام کیا تھا۔