جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کچھ ریاستوں میں مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی غرض سے مبینہ لوجہاد کی آڑ میں بنائے گئے قانون پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی قانون سازی آئین کے رہنما اصولوں کے خلاف ہے اور یہ قانون شہریوں کی آزادی اور خود مختاری پر ایک حملہ ہے۔ آئین میں ملک کے ہر شہری کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی فراہم کی گئی ہے بلکہ اسے اپنی پسند اور ناپسند کے اظہار کا بھی پورا اختیار دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے وقت دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کا اطلاق سب پر یکساں ہوگا اور کسی فرقے کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا، لیکن اترپردیش جیسی اہم ریاست میں اس آئین مخالف قانون کا دھڑلے سے ایک مخصوص فرقہ کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔
انہوں نے آگے کہا کہ حال ہی میں اسی طرح کے ایک معاملہ میں الہ آباد ہائی کورٹ میں اترپردیش سرکار کی طرف سے جو حلف نامہ داخل کیا گیا ہے وہ اس افسوسناک سچائی کا آئینہ ہے، حلف نامہ میں دی گئی تفصیل کے مطابق اب تک جن 85 لوگوں کے خلاف اس قانون کے تحت مقدمے قائم کیے گئے ہیں، ان میں 79 مسلمان ہیں جب کہ دیگر عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ اترپردیش میں خاص طور پر اس طرح کے معاملوں میں اگر لڑکا ہندو ہے تو پولیس لڑکی کے گھر والوں کی تمام تر کوشش کے باوجود شکایت تک درج نہیں کرتی، الٹے ایسے جوڑوں کو پولیس تحفظ بھی فراہم کرتی ہے۔
مزید پڑھیے: جوہر یونیورسٹی کی 172 ایکڑ اراضی حکومت کے نام
انہوں نے آگے کہا کہ اس طرح کے واقعات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ اس قانون کا استعمال اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف ہی ہو رہا ہے۔ سیتاپور کا واقعہ اس کی مثال ہے کہ جس میں گھر کی خواتین کو بھی گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے جبکہ ان کا کوئی جرم نہیں ہے۔
مولانا مدنی نے آخر میں کہا کہ یہ سخت نا انصافی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا معاملہ ہے۔ اس لئے جمعیۃ علماء ہند نے اس کے خلاف قانونی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ میں اس قانون کو چیلنج کرنے والی جو دوسری پٹیشن داخل ہے، جمعیۃ علماء ہند اس میں مداخلت کار بن چکی ہے۔