حکومت سے مطالبات :۔
٭ عیدگاہوں اور عام مساجد میں ضروری احتیاطی تدابیر کے ساتھ نماز عید الاضحی اداکرنے کی اجازت دی جائے
٭ یوپی کی مساجد میں پانچ افراد کی شرط ہٹائی جائے۔
٭ سی بی ایس ای کے ذریعہ نصاب میں تخفیف کے نام پر اہم موضوعات ہٹانے کا فیصلہ غلط، نظر ثانی کا مطالبہ
جمعیۃ علماء ہند کی قومی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری کے زیر صدارت مدنی لائبریری مدنی منزل دیوبند میں منعقدا ہو۔اجلاس میں پہلی بار ویڈیو کانفرنسنگ ایب زوم کا بھی استعمال کیا گیا جس کے ذریعہ کئی اراکین اور مدعو ئین اجلاس کی کارروائی میں حصہ لینے میں کامیاب ہوئے۔مجلس عاملہ کے اجلاس میں بالخصوص شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے)کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی بے جا گرفتاریوں، اترپردیش کی مسجدوں میں پانچ افرادکی شرط لگانے، قربانی اور نماز عید الاضحی سے متعلق رکاوٹوں اور سی بی ایس ای کی جانب سے نصاب میں تخفیف وغیرہ پر تفصیل سے تبادلہ خیال ہوا۔مجلس عاملہ میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے سی اے اے مظاہرین پر عرصہ حیات تنگ کرنے اور مختلف بہانوں سے ان کی گرفتاری پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے اس سلسلے میں کی جارہی قانونی و سیاسی کارروائی پر روشنی ڈالی۔ اس سلسلے میں مجلس عاملہ نے سرکار سے دوٹوک لفظوں میں مطالبہ کیا کہ اس طرح کی بے جا گرفتاریوں پر روک لگا ئی جائے اور گرفتار شدگان پر سے مذکورہ دفعات کو ہٹا کر غیر مشروط طو ر پر رہائی کا فیصلہ کیا جائے اور پولس تشدد میں جن افراد کا جانی و مالی نقصان ہو ا ہے ان کا معقول معاوضہ حکومت کی طرف سے ادا کیا جائے۔
مجلس عاملہ نے اس سلسلے میں منظور کردہ اپنی تجویز میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند، شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کو دستور کی دفعہ 14اور 21کے خلاف سمجھتے ہوئے اس کی مذمت کرتی ہے، اس ایکٹ میں غیر قانونی مہاجر کی تعریف میں مذہبی بنیاد پر تفریق کی گئی ہے، جس سے ملک کے امن پسند شہریوں بالخصوص مسلمانوں میں تشویش ہونا فطری تھا، جس پر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ملک کے طو ل وعرض میں احتجاج ہوئے، جو ان کا جمہوری حق ہے۔جمعیۃعلماء ہند اپنی روایت کے مطابق اس معاملے میں پرامن احتجاج کی قدر کرتی ہے اور وہ ہر طرح کی تشدد سے بیزار ہے خواہ یہ تشدد مظاہرین کی طرف سے ہو یا پولس کی طرف سے اور حکومت کی طرف سے پرامن احتجاج کو روکنے کی جو کوشش ہوئیں اور پھر احتجاج کے شرکاء کے ساتھ جو منفی رویہ اپناتے ہوئے ان پر بغاوت جیسے سخت قوانین کی دفعات لگا کر مختلف بہانوں سے(مثلا فساد وغیرہ میں ملوث کرکے) گرفتاریاں کی جارہی ہیں وہ انتہائی قابل مذمت ہیں۔
اجلاس مجلس عاملہ میں بالخصوص نماز عید الاضحی اور قربانیوں کو لے کر درپیش مسائل او ردشواریوں پر غورو خوض ہو ااور اس سلسلے میں منظور کردہ تجویز میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ”مسلمانوں کی اہم عبادت قربانی اور نماز عیدالاضحی کے لیے ض روری سہولتیں فراہم کی جائیں اور رکاوٹیں دور کی جائیں، جہاں تک قربانی کا تعلق ہے تو وہ ہر صاحب حیثیت مسلمان پر لازم ہے اوروقت کے اندر اس کا کوئی متبادل نہیں ہے، اس لیے ضروری ہے کہ قربانی کے جانوروں کی خریدو فروخت اور منتقلی کے عمل کو محفوظ بنایاجائے اور قربانی کے عمل میں بھی کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی جائے۔ساتھ ہی یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے یہ اپیل بھی کرتا ہے کہ جن پر قربانی واجب ہو وہ قربانی ضرور کریں اور صفائی ستھرائی کا پورا خیال رکھیں، عوامی جگہ پر گوشت،ہڈی، الائش وغیرہ ڈالنے سے مکمل پرہیز کریں اور جانوروں کی خرید و فروخت اور منتقلی میں قانون کی پوری پابندی کریں۔ اسی کے ساتھ حکومت سے یہ اجلاس عیدگاہوں اور عام مساجد میں ضروری احتیاطی تدابیر کے ساتھ نماز عید اداکرنے کی اجازت دینے کا بھی مطالبہ کرتا ہے اور مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ نماز کی اجازت ملنے کی صورت میں ماسک اور سوشل ڈسٹنٹنگ وغیرہ تمام شرائط کا پورا ہتمام کریں۔“
اس کے علاوہ مجلس عاملہ میں یوپی کی مساجد میں پانچ افراد کی شرط لگانے کا مسئلہ بھی اٹھا یا گیا اور ا س پر مسلمانوں کی طرف سے تشویش ظاہر کی گئی، مجلس عاملہ نے یوپی حکومت سے مطالبہ کیا کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ مساجد میں نمازوں کی عام اجازت دی جائے تا کہ لوگ اطمینان کے ساتھ مساجد میں با جماعت پنج وقتہ نماز پڑھ سکیں۔مجلس عاملہ نے اپنی تجویز میں برملا کہا کہ کرونا وائرس (کووِڈ 19)کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملک میں نافذ شدہ لا ک ڈاؤن اگر چہ بتدریج کھولاجانے لگا ہے اور رفتہ رفتہ معمولات زندگی بحال ہورہے ہیں، بازار اور کارخانے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کھول دیے گئے ہیں حتی کہ بہت سے صوبوں میں سماجی فاصلوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تعداد کا لحاظ کیے بغیر مساجد اور عبادت گاہیں بھی کھول دی گئی ہیں، لیکن بعض صوبوں خاص طور پر صوبہ اترپردیش میں صرف پانچ افراد کی شرط لگا کر عملا پابندیوں کو برقرار رکھا ہے جس کی بناپر صوبے میں مساجد عام نمازیوں کے لیے ابھی تک بند ہیں،جس کی وجہ سے مسلمانوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔
مجلس عاملہ نے سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) کے ذریعہ نصاب سے قومیت (نینشنل ازم)سیکولرازم، شہریت (سیٹیزنشپ)اور وفاقیت (فیڈرل ازم)جیسے اہم موضاعات کو خارج کرنے پر بھی سخت تشویش ظاہر کی، واضح ہو کہ سی بی ایس ای کو وزارت فروغ انسانی وسائل نے کرونا کے سبب ہونے والے تعلیمی نقصان کی تلافی کے لیے نصاب میں تیس فیصد تخفیف کا مشورہ دیا تھا، ایسے میں مناسب تو یہ تھا کہ نصاب سے غیر ضروری یا کم ضروری مضامین کی تخفیف کی جاتی لیکن سی بی ایس ای نے ایک مخصوص ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیکولرازم، نیشنل ازم، فیڈرل ازم اور سیٹیزن شپ جیسے اہم موضوعات کا نصاب سے صفایا کردیا ہے۔ جب کہ یہ مضامین ہمارے آئین کی روح اور ملک کے تکثیری اور وفاقی ڈھانچہ کے تحفظ کے ضامن ہیں، جب طلبہ ان مضامین کو نہیں پڑھیں گے تو آئین کی روح سے تعلق رکھنے والے ان بنیادی نظریات سے وہ کس طرح واقف ہوسکیں گے اور ملک کے ایک اچھے شہری کی حیثیت سے اپنا کردار کیسے ادا کرسکیں گے؟اس لیے جمعےۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے اور ان ضروری مضامین کو حسب سابق نصاب میں باقی رکھا جائے۔
ان تجاویز کے علاوہ مجلس عاملہ نے جمعیۃ علماء ہند کی جاری ممبر سازی کی مدت میں ایک بار پھر سے توسیع کرتے ہوئے اعلان کیا کہ31/دسمبر 2020ء تک ممبرسازی جاری رہے گی۔ اس کے بعد یکم جنوری تا25/ جنوری 2021مقامی و ضلعی یونٹوں کا انتخاب ہو گا اور 26/جنوری تا 15/فروری صوبائی یونٹوں کا انتخاب ہو گا۔
مجلس عاملہ نے جمعیۃ علماء ہند کے دو نائبین صدر حضرت مولانا مفتی خیر الاسلام صاحب اور حضرت مولانا امان اللہ صاحب و دیگر اہم شخصیات کی وفات حسرت آیات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیااور اہل خانہ سے تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہوئے مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کی۔
شرکائے اجلاس
اجلاس میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور ناظم عمومی مولانا محمود مدنی کے علاوہ مفتی سلمان منصورپوری، مولانا قاری شوکت علی ویٹ، مفتی محمد راشد اعظمی دارالعلوم دیوبند، مولانا سلمان بجنوری دارالعلوم دیوبند، مولانا معزالدین احمد، مولانا عبداللہ معروفی دارالعلوم دیوبند، مولانا علی حسن مظاہری، مولانا عاقل گڑھی دولت اور مولانا حکیم الدین قاسمی شریک ہوئے جب کہ زوم کے ذریعہ مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند،حافظ ندیم صدیقی مہاراشٹرا، مولانا صدیق اللہ چودھری بنگال، حافظ پیر شبیر احمد حیدر آباد، مولانا مفتی افتخار احمد کرناٹک، مولانا رفیق مظاہری گجرات، مولانا عبدالقادر آسام، مولانا شیخ محمد یحیی آسام،قاری محمد امین راجستھان، مولانا محمد جابر قاسمی اڈیشہ،مفتی حبیب الرحمن الہ آباد، مولانا نیاز احمد فاروقی دہلی، شکیل احمدسید دہلی، حاجی محمد ہارون بھوپال، مفتی محمد عفان منصورپوری امروہہ، مفتی جاوید اقبال کشن گنجی بہار اور مفتی احمد دیولہ گجرات نے حصہ لیا۔
'عیدگاہوں اور مساجد میں عید کی نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے'
جمعیۃ علماء ہند کی قومی مجلس عاملہ کے اجلاس میں کئی اہم مسائل پر غور و خوض، درپیش مسائل کو لے کر کئی تجاویز منظور ہوئیں، اجلاس مجلس عاملہ نے سرکار سے مطالبہ کیا کہ عیدگاہوں اور مساجد میں عید کی نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔
حکومت سے مطالبات :۔
٭ عیدگاہوں اور عام مساجد میں ضروری احتیاطی تدابیر کے ساتھ نماز عید الاضحی اداکرنے کی اجازت دی جائے
٭ یوپی کی مساجد میں پانچ افراد کی شرط ہٹائی جائے۔
٭ سی بی ایس ای کے ذریعہ نصاب میں تخفیف کے نام پر اہم موضوعات ہٹانے کا فیصلہ غلط، نظر ثانی کا مطالبہ
جمعیۃ علماء ہند کی قومی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری کے زیر صدارت مدنی لائبریری مدنی منزل دیوبند میں منعقدا ہو۔اجلاس میں پہلی بار ویڈیو کانفرنسنگ ایب زوم کا بھی استعمال کیا گیا جس کے ذریعہ کئی اراکین اور مدعو ئین اجلاس کی کارروائی میں حصہ لینے میں کامیاب ہوئے۔مجلس عاملہ کے اجلاس میں بالخصوص شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے)کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی بے جا گرفتاریوں، اترپردیش کی مسجدوں میں پانچ افرادکی شرط لگانے، قربانی اور نماز عید الاضحی سے متعلق رکاوٹوں اور سی بی ایس ای کی جانب سے نصاب میں تخفیف وغیرہ پر تفصیل سے تبادلہ خیال ہوا۔مجلس عاملہ میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے سی اے اے مظاہرین پر عرصہ حیات تنگ کرنے اور مختلف بہانوں سے ان کی گرفتاری پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے اس سلسلے میں کی جارہی قانونی و سیاسی کارروائی پر روشنی ڈالی۔ اس سلسلے میں مجلس عاملہ نے سرکار سے دوٹوک لفظوں میں مطالبہ کیا کہ اس طرح کی بے جا گرفتاریوں پر روک لگا ئی جائے اور گرفتار شدگان پر سے مذکورہ دفعات کو ہٹا کر غیر مشروط طو ر پر رہائی کا فیصلہ کیا جائے اور پولس تشدد میں جن افراد کا جانی و مالی نقصان ہو ا ہے ان کا معقول معاوضہ حکومت کی طرف سے ادا کیا جائے۔
مجلس عاملہ نے اس سلسلے میں منظور کردہ اپنی تجویز میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند، شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کو دستور کی دفعہ 14اور 21کے خلاف سمجھتے ہوئے اس کی مذمت کرتی ہے، اس ایکٹ میں غیر قانونی مہاجر کی تعریف میں مذہبی بنیاد پر تفریق کی گئی ہے، جس سے ملک کے امن پسند شہریوں بالخصوص مسلمانوں میں تشویش ہونا فطری تھا، جس پر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ملک کے طو ل وعرض میں احتجاج ہوئے، جو ان کا جمہوری حق ہے۔جمعیۃعلماء ہند اپنی روایت کے مطابق اس معاملے میں پرامن احتجاج کی قدر کرتی ہے اور وہ ہر طرح کی تشدد سے بیزار ہے خواہ یہ تشدد مظاہرین کی طرف سے ہو یا پولس کی طرف سے اور حکومت کی طرف سے پرامن احتجاج کو روکنے کی جو کوشش ہوئیں اور پھر احتجاج کے شرکاء کے ساتھ جو منفی رویہ اپناتے ہوئے ان پر بغاوت جیسے سخت قوانین کی دفعات لگا کر مختلف بہانوں سے(مثلا فساد وغیرہ میں ملوث کرکے) گرفتاریاں کی جارہی ہیں وہ انتہائی قابل مذمت ہیں۔
اجلاس مجلس عاملہ میں بالخصوص نماز عید الاضحی اور قربانیوں کو لے کر درپیش مسائل او ردشواریوں پر غورو خوض ہو ااور اس سلسلے میں منظور کردہ تجویز میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ”مسلمانوں کی اہم عبادت قربانی اور نماز عیدالاضحی کے لیے ض روری سہولتیں فراہم کی جائیں اور رکاوٹیں دور کی جائیں، جہاں تک قربانی کا تعلق ہے تو وہ ہر صاحب حیثیت مسلمان پر لازم ہے اوروقت کے اندر اس کا کوئی متبادل نہیں ہے، اس لیے ضروری ہے کہ قربانی کے جانوروں کی خریدو فروخت اور منتقلی کے عمل کو محفوظ بنایاجائے اور قربانی کے عمل میں بھی کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی جائے۔ساتھ ہی یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے یہ اپیل بھی کرتا ہے کہ جن پر قربانی واجب ہو وہ قربانی ضرور کریں اور صفائی ستھرائی کا پورا خیال رکھیں، عوامی جگہ پر گوشت،ہڈی، الائش وغیرہ ڈالنے سے مکمل پرہیز کریں اور جانوروں کی خرید و فروخت اور منتقلی میں قانون کی پوری پابندی کریں۔ اسی کے ساتھ حکومت سے یہ اجلاس عیدگاہوں اور عام مساجد میں ضروری احتیاطی تدابیر کے ساتھ نماز عید اداکرنے کی اجازت دینے کا بھی مطالبہ کرتا ہے اور مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ نماز کی اجازت ملنے کی صورت میں ماسک اور سوشل ڈسٹنٹنگ وغیرہ تمام شرائط کا پورا ہتمام کریں۔“
اس کے علاوہ مجلس عاملہ میں یوپی کی مساجد میں پانچ افراد کی شرط لگانے کا مسئلہ بھی اٹھا یا گیا اور ا س پر مسلمانوں کی طرف سے تشویش ظاہر کی گئی، مجلس عاملہ نے یوپی حکومت سے مطالبہ کیا کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ مساجد میں نمازوں کی عام اجازت دی جائے تا کہ لوگ اطمینان کے ساتھ مساجد میں با جماعت پنج وقتہ نماز پڑھ سکیں۔مجلس عاملہ نے اپنی تجویز میں برملا کہا کہ کرونا وائرس (کووِڈ 19)کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملک میں نافذ شدہ لا ک ڈاؤن اگر چہ بتدریج کھولاجانے لگا ہے اور رفتہ رفتہ معمولات زندگی بحال ہورہے ہیں، بازار اور کارخانے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کھول دیے گئے ہیں حتی کہ بہت سے صوبوں میں سماجی فاصلوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تعداد کا لحاظ کیے بغیر مساجد اور عبادت گاہیں بھی کھول دی گئی ہیں، لیکن بعض صوبوں خاص طور پر صوبہ اترپردیش میں صرف پانچ افراد کی شرط لگا کر عملا پابندیوں کو برقرار رکھا ہے جس کی بناپر صوبے میں مساجد عام نمازیوں کے لیے ابھی تک بند ہیں،جس کی وجہ سے مسلمانوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔
مجلس عاملہ نے سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) کے ذریعہ نصاب سے قومیت (نینشنل ازم)سیکولرازم، شہریت (سیٹیزنشپ)اور وفاقیت (فیڈرل ازم)جیسے اہم موضاعات کو خارج کرنے پر بھی سخت تشویش ظاہر کی، واضح ہو کہ سی بی ایس ای کو وزارت فروغ انسانی وسائل نے کرونا کے سبب ہونے والے تعلیمی نقصان کی تلافی کے لیے نصاب میں تیس فیصد تخفیف کا مشورہ دیا تھا، ایسے میں مناسب تو یہ تھا کہ نصاب سے غیر ضروری یا کم ضروری مضامین کی تخفیف کی جاتی لیکن سی بی ایس ای نے ایک مخصوص ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیکولرازم، نیشنل ازم، فیڈرل ازم اور سیٹیزن شپ جیسے اہم موضوعات کا نصاب سے صفایا کردیا ہے۔ جب کہ یہ مضامین ہمارے آئین کی روح اور ملک کے تکثیری اور وفاقی ڈھانچہ کے تحفظ کے ضامن ہیں، جب طلبہ ان مضامین کو نہیں پڑھیں گے تو آئین کی روح سے تعلق رکھنے والے ان بنیادی نظریات سے وہ کس طرح واقف ہوسکیں گے اور ملک کے ایک اچھے شہری کی حیثیت سے اپنا کردار کیسے ادا کرسکیں گے؟اس لیے جمعےۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے اور ان ضروری مضامین کو حسب سابق نصاب میں باقی رکھا جائے۔
ان تجاویز کے علاوہ مجلس عاملہ نے جمعیۃ علماء ہند کی جاری ممبر سازی کی مدت میں ایک بار پھر سے توسیع کرتے ہوئے اعلان کیا کہ31/دسمبر 2020ء تک ممبرسازی جاری رہے گی۔ اس کے بعد یکم جنوری تا25/ جنوری 2021مقامی و ضلعی یونٹوں کا انتخاب ہو گا اور 26/جنوری تا 15/فروری صوبائی یونٹوں کا انتخاب ہو گا۔
مجلس عاملہ نے جمعیۃ علماء ہند کے دو نائبین صدر حضرت مولانا مفتی خیر الاسلام صاحب اور حضرت مولانا امان اللہ صاحب و دیگر اہم شخصیات کی وفات حسرت آیات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیااور اہل خانہ سے تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہوئے مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کی۔
شرکائے اجلاس
اجلاس میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور ناظم عمومی مولانا محمود مدنی کے علاوہ مفتی سلمان منصورپوری، مولانا قاری شوکت علی ویٹ، مفتی محمد راشد اعظمی دارالعلوم دیوبند، مولانا سلمان بجنوری دارالعلوم دیوبند، مولانا معزالدین احمد، مولانا عبداللہ معروفی دارالعلوم دیوبند، مولانا علی حسن مظاہری، مولانا عاقل گڑھی دولت اور مولانا حکیم الدین قاسمی شریک ہوئے جب کہ زوم کے ذریعہ مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند،حافظ ندیم صدیقی مہاراشٹرا، مولانا صدیق اللہ چودھری بنگال، حافظ پیر شبیر احمد حیدر آباد، مولانا مفتی افتخار احمد کرناٹک، مولانا رفیق مظاہری گجرات، مولانا عبدالقادر آسام، مولانا شیخ محمد یحیی آسام،قاری محمد امین راجستھان، مولانا محمد جابر قاسمی اڈیشہ،مفتی حبیب الرحمن الہ آباد، مولانا نیاز احمد فاروقی دہلی، شکیل احمدسید دہلی، حاجی محمد ہارون بھوپال، مفتی محمد عفان منصورپوری امروہہ، مفتی جاوید اقبال کشن گنجی بہار اور مفتی احمد دیولہ گجرات نے حصہ لیا۔