پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے جنرل سکریٹری انیس احمد نے کہا کہ 'یوگی آدتیہ ناتھ کے دور اقتدار میں اتر پردیش میں جنگل راج چل رہا ہے جہاں لاء اینڈ آرڈر پوری طرح سے تباہ ہو چکا ہے۔ پہلے وہاں اقلیتیں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی تھیں لیکن اب دلت اور خواتین بھی ریاست میں غیر محفوظ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'ذات پات کی بنیاد پر یا فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے کی سازش کا الزام لگا کر پاپولر فرنٹ آف انڈیا کو اس معاملے سے جوڑنے کی کوشش سراسر بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے۔ متاثرہ کے اہل خانہ سے ملاقات کے لیے جا رہے چار افراد کو گرفتار کرکے اسے ایک سنسنی خیز خبر بنایا گیا۔
پی ایف آئی کے جنرل سکریٹری نے مزید کہا کہ 'گرفتار شدہ چار میں سے دو افراد ایک طلباء تنظیم سی ایف آئی کے رکن ہیں اور صدیق کاپّن نامی ایک دیگر شخص صحافی اور کیرالہ یونین ورکنگ جرنلسٹ کا سکریٹری ہے۔ صحافیوں کی اس تنظیم نے بھی صدیق کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور اس کے خلاف سپریم کورٹ کا بھی رخ کیا ہے۔
انیس احمد نے کہا کہ 'ان گرفتاریوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اتر پردیش میں متاثرین کے اہل خانہ سے ملاقات کا ارادہ رکھنا بھی ایک جرم بن گیا ہے۔ گرفتاریوں کے بعد کروڑوں روپوں کی غیر ملکی فنڈنگ سے لے کر یوگی حکومت کو بدنام کرنے کی بین الاقوامی سازش جیسی نئی نئی کہانیاں بھی شروع ہو گئی ہیں۔
واضح رہے کہ سی اے اے مخالف مظاہرے کے دوران اتر پردیش پولیس نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی اتر پردیش ریاستی ایڈہاک کمیٹی کے ممبران پر تشدد کا ماسٹر مائنڈ ہونے کا الزام لگایا تھا لیکن عدالت میں انہیں ناکامی ہاتھ آئی اور سبھی گرفتار اشخاص کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ دہلی فسادات میں بھی پی ایف آئی کے شامل ہونے کا الزام بھی دہلی پولیس کے لیے ہزیمت اور شرم کا باعث بنا تھا۔
فی الحال تشدد کے معاملے میں دہلی یا اتر پردیش میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے وابستہ ایک بھی شخص گرفتار نہیں ہے جوکہ اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تمام الزامات فرضی اور من گھڑت ہیں۔