مسلم سماج نے نہ تو اپنے مطالبات کی فہرست سیاسی پارٹیوں کے سامنے رکھی ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتیں مسلمانوں سے متعلق مسائل پر بات کر رہی ہیں۔
آزادی کے بعد شاید یہ پہلا عام انتخابات ہے جب مسلمانوں کے مسائل سیاسی پارٹیوں کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہیں۔
ایک سوال یہ ہے کہ اگر انتخابات سے قبل مسلمانوں کی بات نہیں ہو رہی ہے تو کیا انتخابات کے بعد ان کے مسائل پر لوک سبھا میں بات ہو سکے گی؟ لیکن اس سے بڑا سوال یہ کہ مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے کیا مسلم نمائندوں کی مناسب تعداد لوک سبھا میں پہنچ پائے گی؟ اور کیا مسلم نمائندگی کے تئیں کسی بھی پارٹی میں سنجیدگی پائی جاتی ہے۔
سنہ 2011 کی مردم شماری میں ملک میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 14.2 فیصد تھی۔ اس حساب سے لوک سبھا میں مسلمانوں کے 77 نمائندے ہونے چاہیئں۔ لیکن آبادی کی مناسبت سے مسلمانوں کولوک سبھا میں نمائندگی کبھی بھی نہیں مل پائی۔
آزادی کے بعد پہلی لوک سبھا میں 21 مسلمان منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت لوک سبھا میں 489 نشستیں تھیں۔ اس حساب سے مسلمانوں کی نمائندگی 4.29 فیصد تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ انتخابات کے بعد مسلمانوں کی نمائندگی آزادی کے بعد سب سے کم رہی۔ لوک سبھا کی 545 نشستوں کے لیے محض 23 مسلم منتخب ہوئے تھے۔
آزادی کے بعد سے سولہویں لوک سبھا تک مسلم ارکان پارلیمان پر ایک نظر
سولہویں عام انتخابات میں صرف سات ریاستوں سے ہی مسلم نمائندے لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے۔ سب سے زیادہ 8 ارکان ریاست مغربی بنگال سے تھے جبکہ چار کا تعلق بہار سے تھا۔ جموں و کشمیر اور کیرالا سے تین تین، آسام سے دو، تامل ناڈو اور تلنگانہ سے ایک ایک مسلم رکن پارلیمان جیت کر لوک سبھا پہنچے تھے۔ مرکز کے زیر انتظام لکشدیپ سے ایک نمائندہ منتخب ہوا تھا۔
ان آٹھ ریاستوں اور لکشیدپ میں تقریباً 46 فیصد بھارتی مسلمان بستے ہیں اور ان میں لوک سبھا کی 179 نشستیں ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ باقی ریاستوں میں جہاں مسلمانوں کی آبادی تقریبا 54 فیصد ہے وہاں سے ایک بھی مسلم نمائندہ لوک سبھا کے لیے منتخب نہیں ہوا جبکہ ان ریاستوں میں لوک سبھا کی 364 سیٹیں ہیں۔
مسلمانوں کی نمائندگی پر ایک نظر
آزادی کے بعد سے 16 لوک سبھا انتخابات میں کامیاب ہونے والے مسلم نمائندوں کی تعداد پر نظر ڈالیں تو بڑے دلچسپ اعداد و شمار سامنے آتے ہیں۔
پہلی لوک سبھا سے لیکر چھٹی لوک سبھا تک مسلمانوں کی نمائندگی میں بتدریج اضافہ ہوا۔ پہلی لوک سبھا میں صرف 21 مسلم ارکان پارلیمان منتخب ہوئے تھے۔ لیکن چھٹی لوک سبھا میں یہ تعداد 34 تک پہنچ گئی اور لوک سبھا میں مسلم نمائندگی 4.29 سے بڑھ کر 6.2 تک پہنچی۔
ساتویں عام انتخآبات میں زبردست اچھال آیا اور لوک سبھا میں 49 مسلم ارکان پہنچے۔ اس طرح مسلمانوں کی نمائندگی 9.26 فیصد تک پہنچ گئی۔
سنہ 1984 میں ہونے والے آٹھویں عام انتخابات میں یہ تعداد 46 رہ گئی جبکہ 1989 میں یہ تعداد گھٹ کر 33 رہ گئی۔
یہ وہی دور تھا جب لوک سبھا میں بی جے پی کے امیدواروں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور اس کے ساتھ مسلمانوں کی نمائندگی میں کمی آنے لگی۔ 1989 میں بی جے پی کے 86 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی اور اسی الیکشن میں مسلم نمائندوں کی تعداد 46 سے گھٹ کر 33 ہوگئی۔
سنہ 1991 میں بی جے پی نے 120 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور تب مسلم ارکان پارلیمان کی تعداد گھٹ کر 28 ہوگئی۔
سنہ 1996 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو 163 نشستوں پر کامیابی ملی تھی اور مسلمانوں کی تعداد 28 رہی۔
سنہ 1998 میں بی جے پی نے 182 سیٹیں جیتی تھیں اور تب لوک سبھا میں 29 مسلم ارکان تھے۔
سنہ 1999 میں بی جے پی نے دوبارہ 182 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی اس مرتبہ مسلم نمائندوں کی تعداد 32 ہوگئی۔
لیکن سنہ 2004 میں جیسے ہی بی جے پی 183 سیٹوں سے کم ہوکر 138 پر پہنچی مسلم نمائندوں کی تعداد 32 سے بڑھ کر 36 ہوگئی۔
سنہ 2009 میں پندرہویں لوک سبھا کے انتخابات میں مسلم نمائندوں کی تعداد میں کمی آئی اور یہ تعداد 30 ہوگئی۔
سنہ 2006 میں سچر کمیٹی کی رپورٹ واضح طور پر کہتی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر ہے۔ قبائیل اور دلتوں کو آبادی کے حساب سے لوک سبھا میں رزیرویشن حاصل ہے۔ دلتوں کے لیے 84 سیٹیں تو قبائیل کے لیے 47 سیٹیں محفوظ ہیں۔
لوک سبھا میں مسلمانوں کی گھٹتی تعداد لمحہ فکریہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک میں قبائل برادری کو جب آبادی کے تناسب سے نمائندگی کا موقع دیا گیا تو پھر مسلمانوں کو اس فارمولے سے باہر کیوں رکھا گیا ہے؟