ETV Bharat / state

توسہ میدان یا موت کی وادی؟

وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام میں واقع مشہور سیاحتی مقام توسہ میدان لگاتار کچھ برسوں سے خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔

توسہ میدان یا موت کی وادی!
توسہ میدان یا موت کی وادی!
author img

By

Published : May 28, 2020, 10:44 PM IST

جموں و کشمیر کے ضلع بڈگام میں واقع مشہور سیاحتی مقام توسہ میدان جہاں اپنی خوبصورتی کے لئے وادی بھر میں مشہور ہے وہیں کچھ برسوں سے لگاتار خبروں کی زینت بھی بنا ہوا ہے۔

چند روز قبل توسہ میدان میں ایک پراسرار دھماکہ میں تین بچے زخمی ہوئے تھے، جن میں سے ایک کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔

توسہ میدان یا موت کی وادی!

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ توسہ میدان میں ایسا حادثہ رونما ہوا ہو توسہ میدان بچاؤ فرنٹ نامی تنظیم کے مطابق ابھی تک ان حادثات میں 70 افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کی 280 زخمی ہوئے ہیں۔ جن میں سے بعض افراد عمر بھر کے لیے اپاہج ہو گئے ہیں۔

سنہ 1964سے 2016 تک فوج توسہ میدان کو فائرنگ رینج کے طور استعمال کرتی رہی جہاں متعدد شل ابھی بھی موجود ہیں جس سے انسانی جانوں کا زیاں ہوتا رہتا ہے۔

بھارتی فوج کو فائرنگ رینج کے طور توسہ میدان استعمال کرنے کی لیز دس سال مقرر کی گئی تھی تاہم پانچ دہائیوں تک اس میں لگاتار اضافہ ہوتا رہا۔ اس سے قبل تو سہ میدان کا استعمال کاہچرائی کے طور پر کیا جاتا تھا۔

سری نگر شہر سے تقریبا 50 کلومیٹر دور سمندری سطح سے 10500 فٹ کی بلندی پر پیرپنجال پہاڑیوں کے درمیان واقع توسہ میدان اس وقت عام لوگوں کے لئے موت کا کنواں بنا ہوا ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے توسہ میدان بچاؤ فرنٹ کے بانی اور صدر ڈاکٹر شیخ غلام رسول کا کہنا ہے کہ ’’ہماری تنظیم کا مقصد ہے کہ توسہ میدان میں ہو رہی ہلاکتیں بند ہوں۔ ہمارا مطالبہ بس اتنا ہے کہ یہاں مالی، جانی اور ماحولیاتی نقصان نہ ہو۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سرکار سے مطالبہ کیا کہ ’’تو سہ میدان میں فائرنگ رینج بند کی جانی چاہیے۔ سرکار نے ہمارے مطالبے پر غور کرکے 18 اپریل 2014 کو توسہ میدان سے فائرنگ رینج کو پوری طرح سے ہٹا دیا۔ جس کے بعد ہمارے مطالبے پر آرمی نے آپریشن فلاح کے تحت اس میدان کو سینیٹائز کیا اور پھر اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے سپرد کر دیا۔ جس کے بعد 2016 میں اس وقت کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے توسہ میدان کو محفوظ قرار دے کر عوام کے نام وقت کر دیا۔‘‘

اگر انتظامیہ نے اور آرمی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ توسہ میدان بالکل محفوظ ہے تو پھر حادثے کیوں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’ابھی تک 70 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، تین سو کے قریب زخمی۔ سرکار کے دعوے کے بعد بھی حادثے ہوتے رہے۔ اگر سرکار اور آرمی اپنے دعوے میں سچے ہیں تو اس کی تحقیقات کی جائے کہ آخرکار ان سب کے پیچھے کون ہے؟‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’توسہ میدان کو ایک بار پھر بند کیا جانا چاہئے اور اچھی طریقے سے علاقے کو سینیٹائز کیا جانا چاہئے۔ تمام زخمی اور ہلاک ہوئے افراد کو معاوضہ دیا جانا چاہیے۔‘‘

جموں و کشمیر کے ضلع بڈگام میں واقع مشہور سیاحتی مقام توسہ میدان جہاں اپنی خوبصورتی کے لئے وادی بھر میں مشہور ہے وہیں کچھ برسوں سے لگاتار خبروں کی زینت بھی بنا ہوا ہے۔

چند روز قبل توسہ میدان میں ایک پراسرار دھماکہ میں تین بچے زخمی ہوئے تھے، جن میں سے ایک کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔

توسہ میدان یا موت کی وادی!

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ توسہ میدان میں ایسا حادثہ رونما ہوا ہو توسہ میدان بچاؤ فرنٹ نامی تنظیم کے مطابق ابھی تک ان حادثات میں 70 افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کی 280 زخمی ہوئے ہیں۔ جن میں سے بعض افراد عمر بھر کے لیے اپاہج ہو گئے ہیں۔

سنہ 1964سے 2016 تک فوج توسہ میدان کو فائرنگ رینج کے طور استعمال کرتی رہی جہاں متعدد شل ابھی بھی موجود ہیں جس سے انسانی جانوں کا زیاں ہوتا رہتا ہے۔

بھارتی فوج کو فائرنگ رینج کے طور توسہ میدان استعمال کرنے کی لیز دس سال مقرر کی گئی تھی تاہم پانچ دہائیوں تک اس میں لگاتار اضافہ ہوتا رہا۔ اس سے قبل تو سہ میدان کا استعمال کاہچرائی کے طور پر کیا جاتا تھا۔

سری نگر شہر سے تقریبا 50 کلومیٹر دور سمندری سطح سے 10500 فٹ کی بلندی پر پیرپنجال پہاڑیوں کے درمیان واقع توسہ میدان اس وقت عام لوگوں کے لئے موت کا کنواں بنا ہوا ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے توسہ میدان بچاؤ فرنٹ کے بانی اور صدر ڈاکٹر شیخ غلام رسول کا کہنا ہے کہ ’’ہماری تنظیم کا مقصد ہے کہ توسہ میدان میں ہو رہی ہلاکتیں بند ہوں۔ ہمارا مطالبہ بس اتنا ہے کہ یہاں مالی، جانی اور ماحولیاتی نقصان نہ ہو۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سرکار سے مطالبہ کیا کہ ’’تو سہ میدان میں فائرنگ رینج بند کی جانی چاہیے۔ سرکار نے ہمارے مطالبے پر غور کرکے 18 اپریل 2014 کو توسہ میدان سے فائرنگ رینج کو پوری طرح سے ہٹا دیا۔ جس کے بعد ہمارے مطالبے پر آرمی نے آپریشن فلاح کے تحت اس میدان کو سینیٹائز کیا اور پھر اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے سپرد کر دیا۔ جس کے بعد 2016 میں اس وقت کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے توسہ میدان کو محفوظ قرار دے کر عوام کے نام وقت کر دیا۔‘‘

اگر انتظامیہ نے اور آرمی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ توسہ میدان بالکل محفوظ ہے تو پھر حادثے کیوں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’ابھی تک 70 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، تین سو کے قریب زخمی۔ سرکار کے دعوے کے بعد بھی حادثے ہوتے رہے۔ اگر سرکار اور آرمی اپنے دعوے میں سچے ہیں تو اس کی تحقیقات کی جائے کہ آخرکار ان سب کے پیچھے کون ہے؟‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’توسہ میدان کو ایک بار پھر بند کیا جانا چاہئے اور اچھی طریقے سے علاقے کو سینیٹائز کیا جانا چاہئے۔ تمام زخمی اور ہلاک ہوئے افراد کو معاوضہ دیا جانا چاہیے۔‘‘

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.