مرکزی زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے ضلع بڈگام میں اینٹ کی قیمتوں میں فی الحال کمی ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ رواں سال کووڈ-19 وبا کی وجہ سے عائد لاک ڈاون و پابندیوں سے انتظامیہ نے بھٹہ مالکان کو غیر ریاستی مزدوروں کو لانے کی اجازت نہیں دی، جس سے اینٹ ڈالنے کا آدھے سے زیادہ وقت پہلے ہی ضائع ہوگیا۔ بعد میں انتظامیہ نے بھٹہ مالکان کو اجازت دی کہ وہ غیر ریاستی مزدوروں کو کشمیر لا سکتے ہیں اور ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے اپنے بھٹوں میں کام شروع کرسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں بھٹہ مالکان نے مزدوروں کو لانے کا کام شروع کیا۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے بھٹہ مالک محمد قاسم ڈار نے اس بات کا انکشاف کیا کہ اینٹ کی قیمتوں میں کمی نہیں آئے گی جس کی وجہ ایک تو کوؤڈ-19 وبا سے عائد لاک ڈاون اور پابندیاں ہیں اور دوسرا اس دوران آدھے سے زیادہ سیزن ختم ہوچکا ہے۔ اب صرف ڈیڑھ مہینہ بچا ہے اس میں کتنا کام ہوگا۔ اوپر سے بارش کا خدشہ لاحق ہوتا ہے۔
محمد قاسم نے کہا کہ اس سال ہمیں مزدوروں کا سارا خرچہ اُٹھانا پڑا جو وہ خود اُٹھاتے تھے۔ اس میں ہمیں اِن غیرریاستی مزدوروں کو یو پی سے لانا پڑا ہے، بس کا کرایا سے لیکر کھانے پینے و بیماری کا بھی خرچہ ہمیں ہی اُٹھانا پڑا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اِن کی دہاڈی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
پنجاب میں ہمیں تقریباً پانچ سے سات دن مزدوروں سمیت روکے رکھا گیا، جس سے ہمارے بہت سارا پیسہ خرچ ہوا۔ جس گاڑی میں ہم نے یو پی سے مزدوروں کو لایا اُن کو بھی جموں سے پہلے ہی ایس آر ٹی سی گاڑیوں سے کشمیر لایا گیا جس کی ہم سے اضافی رقم وصول کی گئ۔ یہاں سے واپس جانے میں جو خرچہ آئے گا وہ بھی ہمیں ہی خرچ کرنا ہے۔
ہم گورنمٹ کو رائلٹی فیس دینے کے ساتھ ساتھ سی سی اکاؤنٹ پر جی ایس ٹی بھی جمع کرتے ہیں۔ کوئلہ کی قیمت میں اچانک سے اضافہ ہو گیا۔ اس کے علاوہ ہم جو ریت استعمال کرتے ہیں اس کی قیمت دس گنا بڑھ گئی ہے۔ ہم اپنے بھٹوں میں لکڑی کا استعمال بھی کرتے ہیں جو ہمیں بہت ہی اونچے داموں پر مل رہی ہے۔
مزدوروں کے آنے سے اینٹ کی قیمتوں میں کمی تب آتی جب حالات ٹھیک ہوتے اور ہمیں انتظامیہ مدد فراہم کرتا، چاہے وہ کوئلہ، لکڑی یا ریت کی قیمتوں میں کمی ہو یا رائلٹی فیس میں نرمی ہوتی، ہمارا جی ایس ٹی معاف ہوتا، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ہم پر اور زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا۔