دو ہزار بیس میں جب کورونا وائرس کا قہر جاری تھا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں تک ہی محدود تھے، تو پارنیوہ بڈگام سے تعلق رکھنے والی نویں جماعت کی طالبہ صباحت قیوم نے اپنے ہنر کو نکھارا۔
صباحت نے قلم اور کاغذ اُٹھایا اور لکھنا شروع کیا اور دیڑھ سال کی کڑی محنت اور لگن کے بعد آخرکار وہ دن آہی گیا جب صباحت ایک کتاب کی مصنفہ بن گئی۔ کتاب کا ٹائٹل ہی ساری کہانی بیان کرتا ہے۔ صباحت کی کتاب 'ڈونٹ ڈائے بِفور یوور ڈیتھ' رواں ماہ پانچ تاریخ کو پبلش ہوئی اور امیزان اور فلپ کارٹ پر اب تک سو سے زائد کتابیں فروخت بھی ہوئی ہیں۔
صباحت کا کہنا ہے کہ کشمیر میں ہنر کی کوئی کمی نہیں ہے بس اسے آزمانے اور اسکی نمائش کرنے کا موقع فراہم ہونا چاہئے۔
صباحت نے اس کتاب میں سماج کے تقریباً ہر پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے نوجوانوں میں منشیات کی لت سے لیکر سماج میں موجود دیگر برائیوں کا موثر انداز میں تذکرہ کیا ہے۔ صباحت کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں ہم یقیناً وقت سے پہلے ہی مر گئے ہیں اور جب انہوں نے کتاب میں سماجی عناصر کے بارے میں لکھا تو انہوں نے کتاب کا نام ہی 'ڈونٹ ڈائے بِفور یوور ڈیتھ' رکھا۔
والدین صباحت کا کافی ساتھ دیا۔ انہوں نے صباحت کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے۔ صباحت کے والدین کا کہنا ہے کہ موجودہ وقت میں بیٹیاں ہی بیٹوں سے آگے چل رہی ہے لہٰذا والدین کو اپنی لڑکیوں کا ساتھ دینا چاہئے تاکہ وہ اپنے ہنر کا مظاہرہ کریں۔
وادی کشمیر میں ہنر کی کوئی کمی نہیں ہے، کمی اگر کسی چیز کی ہے وہ بہتر پلیٹ فارم اور گائڈینس کی ہے۔ اگر بچوں کو صحیح پلیٹ فارم اور بہتر گائڈینس مہیا کی جائے تو یہاں کے طلباء پوری دنیا میں اپنا نام کما سکتے ہیں۔ لہٰذا سرکار کو چاہیے کہ اس پر اقدام کریں تاکہ یہاں کے بچوں میں جو ہنر ہے اسکا مظاہرہ ہو سکے۔