دور جدید کے نایاب گوہر اور اردو ادب کے معروف نقاد شمس الرحمن فاروقی کے سانحہ ارتحال پر ارریہ کا ادباء، شعراء و دانشوران حلقہ غمزدہ ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کے انتقال کو اردو ادب کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان سے تعبیر کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ شمس الرحمن فاروقی کی شخصیت اور سیرت روز روشن کی طرح عیاں ہے، وہ اپنے آپ میں ایک انجمن تھے، ان کے انتقال کے ساتھ ہی ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔
مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ کے انچارج پرنسپل مولانا شاہد عادل قاسمی نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی کا انتقال اردو ادب کے لئے بڑا خسارہ ہے، وہ اس عہد کے ایک ممتاز ادیب تھے۔ ان کی تخلیقات و اسلوب دیگر افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں سے منفرد تھے، انہوں نے ایسے تخلیقی کارنامے انجام دئیے جو ہر شعبہ کے طلباء کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔
ادیب و صحافی ارشد انور الف نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ اردو ادب کے کئی لازوال تصنیفات ان کے نام ہے، لغت، افسانے، تحقیق، داستان اور تنقید کے حوالے سے شمس الرحمن فاروقی کی جو خدمات ہیں وہ وقیع بھی ہیں اور وسیع بھی ہیں۔ ان کے انتقال سے اردو ادب و تنقید کا ایک اہم ستون گر گیا۔
نوجوان ادیب و جمعیۃ علما ہند ارریہ کے سکریٹری مفتی ہمایوں اقبال ندوی نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی نے اردو دنیا کو شب خون جیسا معیاری رسالہ عطا کیا تھا، جس کے ذریعے نئی نسل کو جدیدیت کی سمجھ میں نمایاں فرق محسوس ہوا، جس صنعت و صنف میں انہوں نے طبع آزمائی کی اس کا حق ادا کیا۔ آج ہم ارریہ والے ان کے انتقال پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔