ETV Bharat / state

اردو کو نقصان کس سے پہنچا؟

ریاست بہار کے ضلع گیا کے مرزا غالب کالج کے شعبۂ اردو کے سابق ایچ او ڈی پروفیسر حفیظ الرحمن نے بہار کے محکمۂ تعلیم کی جانب سے نصاب میں اردو کی لازمیت ختم کرنے کے سلسلے میں ای ٹی وی بھارت اردو سے خصوصی بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ 'اردو کو جو کچھ زک پہنچی، وہ زیادہ تر اردو والوں سے پہنچی ہے۔ اس موضوع پر ہمیں پرزور طریقے سے آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے

author img

By

Published : Sep 4, 2020, 7:59 PM IST

اردو دانوں کی غفلت سے اردو کو نقصان پہنچایا ہے :پروفیسر حفیظ الرحمن
اردو دانوں کی غفلت سے اردو کو نقصان پہنچایا ہے :پروفیسر حفیظ الرحمن

بہار حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی میں اردو زبان سے سوتیلا رویہ اختیار کرنے کے سلسلے میں ہرطرف حکومت کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے۔

بہار کے محکمۂ تعلیم نے ایک سرکولر جاری کر کے نصاب سے اردو کی لازمیت ختم کر دی ہے۔ اس کی مخالفت میں سیاسی رہنماء و محبان اردو کا ایک وفد بھی محکمۂ تعلیم کے وزیر سے ملاقات کر چکا ہے۔ تاہم وزیر موصوف نے ٹال مٹول کر دیا ہے۔ حکومت تک جن لوگوں کی پہنچ ہے، انہوں نے اس موضوع پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

اردو دانوں کی غفلت سے اردو کو نقصان پہنچایا ہے :پروفیسر حفیظ الرحمن

ای ٹی وی بھارت اردو نے 'بہار میں اردو کا مستقبل تاریک یا تابناک ' کے سوال کے ساتھ گیا کے پروفیسرز حضرات سے اس کے متعلق رائے لی ہے۔

مرزاغالب کالج کے سابق پروفیسر انچارج و شعبۂ اردو کے سابق ایچ او ڈی پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمن خان نے کہا کہ 'اردو کا مستقبل تاریک یا تابناک یہ ایک ایسا موضوع ہے جس سے حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اردو کو جو کچھ زک پہنچی وہ زیادہ تر اردو والوں سے پہنچی ہے اور یہ بہت معمولی لڑائی ہے کہ نصاب میں اردو کی لازمیت کو ختم کیا گیا، اگر ہم چاہیں تو ایک جگہ آکر اپنی آواز بلند کر کے یہ لازمیت برقرار رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں اور حکومت تک پرزور طریقے سے آواز بلند کی جا سکتی ہے لیکن اردو کو جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ اردو دانوں کی وجہ سے ہی پہنچ رہا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'ان کی ذاتی رائے یہ ہے کہ اردو اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک اردو سوکھی روٹی کھانے والے یعنی کہ مدرسے والے زندہ رہیں گے تب تک اردو کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔'

انہوں نے کہا کہ 'سرکاری سطح سے بھی اردو کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے اور وہ اردو برادری کی غفلت کی وجہ سے ہوئی ہے۔'

پروفیسر احسان اللہ دانش نے کہا کہ 'اردو کا مسقبل تاریک تو نہیں ہو سکتا ہے۔ بہار میں اردو کو ثانوی زبان کا درجہ حاصل ہے اور یہ حق بڑی مشقت اور لڑائی کے بعد حاصل ہوا ہے۔ یہ قدم سازش کے تحت حکومت نے کیا ہے، جب بنیادی سطح سے اردو ختم ہوگی تو خودبخود اوپر سے اردو ختم ہو جائے گی، بچوں کی دلچسپی ختم ہوگی، اس کے علاوہ کئی اور معاملات ہیں جو ختم ہوجائیں گے۔'

انہوں نے کہا کہ 'اردو سے نفرت کیوں ہے یہ سمجھ سے پرے ہے کیونکہ یہ زبان تو ہندوستانی زبان ہے، گنگاجمنی تہذیب کی علامت ہے۔'

پروفیسر احسان اللہ دانش نے کہا کہ 'اردو کو سرکاری سطح سے بچانا ہے تو سبھی کو مل کر لڑنا ہوگا۔'

واضح ہو کہ محکمۂ تعلیم بہار نے نصاب سے اردو کی لازمیت ختم کر دی ہے ، احتجاج و مظاہرے کے باوجود حکومت اسے واپس لینے کو تیار نہیں ہے ۔

بہار حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی میں اردو زبان سے سوتیلا رویہ اختیار کرنے کے سلسلے میں ہرطرف حکومت کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے۔

بہار کے محکمۂ تعلیم نے ایک سرکولر جاری کر کے نصاب سے اردو کی لازمیت ختم کر دی ہے۔ اس کی مخالفت میں سیاسی رہنماء و محبان اردو کا ایک وفد بھی محکمۂ تعلیم کے وزیر سے ملاقات کر چکا ہے۔ تاہم وزیر موصوف نے ٹال مٹول کر دیا ہے۔ حکومت تک جن لوگوں کی پہنچ ہے، انہوں نے اس موضوع پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

اردو دانوں کی غفلت سے اردو کو نقصان پہنچایا ہے :پروفیسر حفیظ الرحمن

ای ٹی وی بھارت اردو نے 'بہار میں اردو کا مستقبل تاریک یا تابناک ' کے سوال کے ساتھ گیا کے پروفیسرز حضرات سے اس کے متعلق رائے لی ہے۔

مرزاغالب کالج کے سابق پروفیسر انچارج و شعبۂ اردو کے سابق ایچ او ڈی پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمن خان نے کہا کہ 'اردو کا مستقبل تاریک یا تابناک یہ ایک ایسا موضوع ہے جس سے حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اردو کو جو کچھ زک پہنچی وہ زیادہ تر اردو والوں سے پہنچی ہے اور یہ بہت معمولی لڑائی ہے کہ نصاب میں اردو کی لازمیت کو ختم کیا گیا، اگر ہم چاہیں تو ایک جگہ آکر اپنی آواز بلند کر کے یہ لازمیت برقرار رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں اور حکومت تک پرزور طریقے سے آواز بلند کی جا سکتی ہے لیکن اردو کو جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ اردو دانوں کی وجہ سے ہی پہنچ رہا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'ان کی ذاتی رائے یہ ہے کہ اردو اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک اردو سوکھی روٹی کھانے والے یعنی کہ مدرسے والے زندہ رہیں گے تب تک اردو کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔'

انہوں نے کہا کہ 'سرکاری سطح سے بھی اردو کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے اور وہ اردو برادری کی غفلت کی وجہ سے ہوئی ہے۔'

پروفیسر احسان اللہ دانش نے کہا کہ 'اردو کا مسقبل تاریک تو نہیں ہو سکتا ہے۔ بہار میں اردو کو ثانوی زبان کا درجہ حاصل ہے اور یہ حق بڑی مشقت اور لڑائی کے بعد حاصل ہوا ہے۔ یہ قدم سازش کے تحت حکومت نے کیا ہے، جب بنیادی سطح سے اردو ختم ہوگی تو خودبخود اوپر سے اردو ختم ہو جائے گی، بچوں کی دلچسپی ختم ہوگی، اس کے علاوہ کئی اور معاملات ہیں جو ختم ہوجائیں گے۔'

انہوں نے کہا کہ 'اردو سے نفرت کیوں ہے یہ سمجھ سے پرے ہے کیونکہ یہ زبان تو ہندوستانی زبان ہے، گنگاجمنی تہذیب کی علامت ہے۔'

پروفیسر احسان اللہ دانش نے کہا کہ 'اردو کو سرکاری سطح سے بچانا ہے تو سبھی کو مل کر لڑنا ہوگا۔'

واضح ہو کہ محکمۂ تعلیم بہار نے نصاب سے اردو کی لازمیت ختم کر دی ہے ، احتجاج و مظاہرے کے باوجود حکومت اسے واپس لینے کو تیار نہیں ہے ۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.