چوڑی عورتوں کی زینت ہوتی ہے اور چوڑی سےعورت کی خوبصورتی میں مزید چارچاند لگ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کئی اقسام کی رنگ برنگی دلکش چوڑیاں بنائی جاتی ہیں۔ کچھ چوڑیاں خاص وقت کے لیے مخصوص ہوتی ہیں جس میں شادی کا موقع بھی شامل ہے اور اس موقع پر دلہن کی چوڑیاں دیگر لڑکیوں کے بہ نسبت الگ ہوتی ہیں۔ گیا ضلع سے تیارکردہ چوڑیوں نے منفرد مقام حاصل کرلیا ہے اور یہاں کی تیار چوڑیاں دلہن اور کم عمر کی خواتین کی پہلی پسند بن گئی ہے اس کام سے یہاں کی خواتین کی معاشی حالت بھی بہتر ہونے لگی۔
گیا ضلع کی مسلم خواتین خود انحصاری کے لیے ایک نئی راہ ہموار کر رہی ہیں یہاں کی ہزاروں خواتین نے چوڑی بنانا سیکھا ہے اور اس کے ذریعے وہ اپنی ضروریات کو پورا کررہی ہیں ،چوڑی بنانے کے کام میں اس وقت پانچ ہزار مسلم گھروں کی خواتین مصروف ہیں یہ پیشہ روز گار کا ایک ذریعہ بن گیا ہے یومیہ اجرت کے طور پر 300 سے 500 روپے ہردن کی آمدنی ہے۔
شہر کے اقبال نگر اور وارث نگر محلے میں سطح غربت والی آبادی بستی ہے یہاں پہلے بڑے پیمانے پر ہر گھر کی عورتیں " اگر بتی" بناتی تھی تاہم اس میں آمدنی کم اور محنت زیادہ تھی لیکن گزشتہ دو تین برسوں میں یہاں کا کام بدل گیا ہے ، یہاں دلہن کی خاص چوڑی جسے "چوڑا "کہا جاتا ہے ایم ڈی چوڑی سمیت کئی قسم کی چوڑیاں بنائی جاتی ہیں ان چوڑیوں میں کیمیکل بھرنے کے ساتھ موتی اور چمک دار نگینے وغیرہ لگائے جاتے ہیں ،یہاں دوسری ریاستوں سے آدھی تیار ہوکر چوڑیاں پہنچتی ہیں اور پھر اس پر ' ہینڈورک 'گیا میں کیا جاتا ہے، یہاں کی تیار شدہ چوڑیاں بہار کے سبھی ضلعوں سمیت دوسری ریاستوں کو بھیجی جاتی ہیں ، اسکا ماہانہ کروڑوں کا کاروبار ہے ، کاریگروں کو ایک سیٹ چوڑی بنانے کی قیمت 20سے 30روپے ملتی ہے مارکیٹ میں ان چوڑیوں کی قیمت 300 سے 500 تک ہوتی ہے۔
اقبال نگر محلہ کی زینت خان نے کہاکہ وہ شہر کے مرزاغالب کالج میں گریجویشن پارٹ ٹو میں زیر تعلیم ہے ، والدین اسکی تعلیم کو لیکر فکر مندتھے تاہم اس نے چوڑی کے " پیکنگ " کا کام شروع کیا کیونکہ انکے محلے میں چوڑی بنائی جاتی ہے اور اسکی خوبصورت پیکنگ کا کام وہ اپنی والدہ کے ساتھ ملکر کرتی ہیں زینت خان کا ماننا ہے کہ لڑکیوں کو بھی اس طرح گھربیٹھے روزگار سے جڑکر خود انحصاری کی جانب بڑھنا چاہیے حالانکہ یہاں کے چوڑی کے کام کو ایم ایس ایم ای سے " صنعت کا درجہ " نہیں ملنے سے انہیں مایوسی بھی ہے جبکہ شہناز خاتون کہتی ہیں وہ اس کام کو اسلیے کرتی ہے کیونکہ گھر کے مردوں کو اخرجات میں مدد مل جاتی ہے اور وہ بھی اپنی ضروریات کو پورا کرلیتی ہیں۔
اقبال نگر اور وارث نگر محلہ اقتصادی طورپر مضبوط نہیں ہے لیکن حال ہی میں یہاں چوڑی کے چھوٹے ٹھوک تاجروں سمیت بنانے والوں کا یہ مرکز گیا بن گیا ہے اس آمدنی کے ذریعے محلے میں معاشی طور پر لوگ بہتر ہونے لگے نازخان بتاتی ہے کہ پہلے اس محلے میں مزید غربت تھی لیکن اب لوگ معاشی طور پر بہتر ہونے لگے اور یہاں عوامی بہبود کی اسکیموں کے تحت کچھ کام بھی ہوئے ہیں تاہم سب سے زیادہ ترقی میں چوڑی کا کام ہی کارگر ثابت ہوا ہے صمیدہ خاتون نے کہاکہ پہلے گھر میں صحیح سے دو وقت کی روٹی بھی مشکل تھی تاہم چوڑی کے کام سے اتنی آسانی ہوئی کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش کررہی ہیں بچوں کو سرکاری اسکول میں پڑھاتی ہیں ہردن کچھ گھنٹوں میں انکےگھر کا ایک فرد 75سے سوروپیے کا کام کرلیتا ہے حالانکہ ابھی بھی انکی مالی حالت ٹھیک نہیں ہے وہ محلے کی ایک تنگ گلی میں چھوٹی سی جگہ پر کچے مکان میں رہتی ہیں لیکن پھر بھی وہ اس کام سے خوش ہیں۔چوڑی بنانے کا کام تین سطح سے ہوتاہے یہاں تاجر پہلے دوسری ریاستوں سے چوڑی کے ڈھانچے ، کیمکل اور موتی منگواتے ہیں اور پھر اسے چھوٹے تاجروں کو دستیاب کرایا جاتاہے۔
اسے تیار کرنے کے لیے محلے کی خواتین کو سامان دستیاب کرائے جاتے ہیں چوڑی بننے کے بعد دوسری خواتین کو اسکو خوبصورت ڈیزائن میں پیکنگ کے لیے دیا جاتا ہے یہاں اقبال نگر اور وارث نگر محلے میں چوڑی بنانے کیلئے اور پیکنگ کرنے کے لیے الگ کام ہوتے ہیں۔لوگوں کا کہنا یہ کہ کام شادی کے سیزن میں زیادہ ہوتا ہے ایک تاجر نیاز خان کہتے ہیں کہ اب یہ کام موسمی ہوگیا ہے چھ سات ماہ کام زیادہ ہوتا ہے جبکہ بقیہ ایام میں مندی کاسامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن پھر بھی پچھڑے علاقے کے لیے ایک اچھا ذریعہ معاش ہوگیا ہے تاجروں کی جانب سے کوشش ہوتی ہے کہ ان خواتین کو زیادہ کام دیا جائے جو اقتصادی طور پر کمزور ہیں اب حکومت سے یہی امید ہے کہ اس میں کچھ مدد کرے تو ہرگھر میں اسکا کام بڑے پیمانے پر دیا جائے گا۔ گیا سے تیار شدہ چوڑیوں نے کم وقتوں میں پہچان بنالی ہے یہاں سے تیار شدہ چوڑی میں سب سے زیادہ دلہن کی پہنے جانی والی چوڑی کی مانگ ہے یہ ایک خاص قسم کی چوڑی ہے جس میں بالے بھی شامل ہوتے ہیں اسکے علاوہ ایم ڈی نام کی چوڑی کی دھمک ہے اسکی بھی خوب مانگ ہے یہاں کے دوکانداروں کا کہنا ہے کہ پہلے دلہن چوڑی فیروزآباد یا جے پور سے منگوائی جاتی تھی تاہم اب گیا سے تیار شدہ چوڑی زیادہ فروخت ہونے لگی کیونکہ اسکے ڈیزائن بھی اچھے ہیں اور قیمت بھی مناسب ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں:'چوڑیاں لائیں گی انقلاب'
واضح رہے کہ شہر کا پنچایتی اکھاڑا محلہ تیارشدہ چوڑی کا مرکز ہوگیا ہے یہاں سے دوسرے اضلاع کے تاجر چوڑیاں خرید کر لےجاتے ہیں۔ اب اس کام کو جیویکا سے جوڑی خواتین بھی کررہی ہیں کچھ خواتین اپنے گھرکے مردوں کے تعاون سے خودکی تجارت اور مینو فیکچرنگ کرتی ہیں گویا کہ چوڑی کے اس کام سے مسلم خواتین کی قسمت بدل رہی ہے۔