لالو یادو چارہ گھوٹالہ کیس میں سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے جیل میں تھے، جس کی وجہ سے ان کے کنبہ کے افراد اور ان کے حامی تین سال سے ان کی سالگرہ جوش و جذبے کے ساتھ نہیں منا رہے ہیں۔ لالو ضمانت ملنے کے بعد جیل سے باہر ہیں۔
لالو یادو دہلی میں اپنی بیٹی کے گھر رہ رہے ہیں۔ وہیں ان کی سالگرہ کے موقع پر رشتہ دار اور حامی پٹنہ سے دہلی تک جشن منا رہے ہیں۔ جمعرات سے ہی جشن منانے کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں۔ پٹنہ سے لے کر دہلی تک آر جے ڈی کارکنان نے پوسٹر لگائے تھے۔
ایسے میں ان کی سالگرہ کے موقع پر ان کے سیاسی سفر نامے پر مختصر روشنی ڈالیں گے۔
گیارہ جون 1948 کو بہار کے گوپال گنج کے پھل وریا گاؤں کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے لالو پرساد یادو نے اپنے بچپن کے ایام کو مشکلات میں گزارے، ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی، اعلیٰ تعلیم کے لیے پٹنہ یونیورسٹی کا رخ کیا۔
لالو یادو کا ملک کی سیاست میں ابھرنا کسی چمتکار سے کم نہیں ہے، اپنے طالب علمی کے زمانہ میں ہی بہار کے سابق وزیر اعلیٰ نے سیاست کی ہوا کو پہچان لیا اور پٹنہ یونیورسٹی میں دوران تعلیم یونیورسٹی کیمپس میں اپنی سیاسی زندگی کی شروعات کی۔
سنہ 1973 میں کیمپس طلبا یونین کے صدر بننے کے بعد لالو یادو سنہ 1974 میں بہار میں ہوئے جے پی آندولن میں شامل ہو گئے اور سنہ 1977 میں پہلی بار 29 سال کی عمر میں بہار کے چھپرہ سے پارلیمانی انتخاب میں حصّہ لیا اور پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے، پھر 10 اپریل 1990 کو بطور وزیر اعلی بہار کی کمان سنبھالی۔
راشٹریہ جنتا دل بہار میں تقریباً چودہ برس تک بر سر اقتدار رہے اور اس دوران سات برس تک لالو پرساد یادو خود وزیراعلٰی رہے۔
سنہ 1989 کے عام انتخابات میں نیشنل فرنٹ کی جیت میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ سنہ 97-1990ء تک وہ بہار کے وزیراعلٰی رہے لیکن چارہ بدعنوانی معاملے میں انہیں اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہونا پڑا۔
سنہ 1997ء میں جنتا دل کے ٹوٹنے کے بعد انہوں نے راشٹریہ جنتا دل کا قیام کیا اور اس وقت سے وہ پارٹی کے صدر ہیں۔ بہار کے سابق وزیر اعلیٰ یوپی اے حکومت میں 24 مئی 2004 سے 23 مئی 2009 تک وزیر ریلوے بھی رہے، اس دوران انہوں نے ریلوے کو مالی تقویت بخشی اور مالی بحران سے باہر نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔
لالو کی سب سے بڑی سیاسی ہار 2005ء کے بہار اسمبلی انتخابات میں ہوئی، اس کے بعد انہیں مودی لہر میں لوک سبھا انتخابات میں شکست کا سامناکرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی پارٹی کوئی اثر نہیں دکھاپائی اور کچھ ہی سیٹوں پر انہیں جیت ملی۔
2020 کے بہار اسمبلی انتخابات میں بھی ان کی پارٹی اپنی حکومت بنانے سے قاصر رہی۔ حالانکہ اس وقت لالو پرساد یادو جیل میں تھے، تب ان کے بیٹے نے پارٹی کی کمان سنبھالی اور ان کو کامیابی نہیں مل سکی۔
عام زبان اور اپنے سادہ انداز کے بل پر لالو یادو نے اپنی شخصیت لوگوں کے بیچ میں ایک عام رہنما کے طور پر بنائی، بات چیت کرنے کا ہنر اور اپنی حاضر جوابی کی وجہ سے کبھی خود کو لوگوں سے الگ نہیں ہونے دیا، لیکن سیاست کی انتہا پر فائز بہار کے اس قدآور رہنما کے دامن پر ایک ایسا بدنما داغ بھی لگا جس سے ابھی تک وہ ابھر نہیں پائے ہیں اور اپنی سیاسی زندگی میں جو کچھ بھی حاصل کیا اس پر یہ داغ حاوی ہوتا چلا گیا۔
اپنے اب تک کہ سیاسی کریئر میں لالو یادو نے کئی ایسے ماسٹر اسٹروک لگائے ہیں جس نے سیاست کے تجزیہ کاروں کو حیران کردیا ہے۔
لالویاد اپنے دلچسپ انداز بیان اور تقاریر کے لیے پوری دنیا میں مقبول ہیں۔
مزید پڑھیں:
پدم ایوارڈ کے لئے 15 ستمبر تک نامزدگی
غور طلب ہے کہ لالو یادو نے دہلی میں اپنی بیٹی میسا بھارتی کے یہاں کیک کاٹ کر سالگرہ منایا۔ اس دوران لالو یادو کی اہلیہ اور سابق وزیر اعلی رابڑی دیوی بھی موجود رہیں۔