ETV Bharat / state

Gaya Girl Student Reburial گیا میں مدرسہ کی سولہ سال طالبہ کی دوبارہ تدفین - Reburial of 16 year old madrasa Girl Student Gaya

گیا میں قبر سے پوسٹ مارٹم کے لیے نکالی گئی میت کی دوبارہ تدفین کردی گئی ہے۔ گذشتہ بدھ کی رات کو ایک مدرسہ میں لڑکی کی موت ہوگئی تھی جس کے بعد لاش کو دفن کر دیا گیا۔ بعد میں لڑکی کے گھر والوں کی شکایت پر لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے قبر کشائی کی گئی۔

Gaya Girl Student Reburial
Gaya Girl Student Reburial
author img

By

Published : Jul 17, 2023, 2:53 PM IST

گیا: گیا ضلع کے بیکو پور گاؤں میں قبر سے نکالی گئی سولہ سال کی طالبہ کی میت کی دوبارہ تدفین عمل میں آگئی ہے۔ گزشتہ مجسٹریٹ کی نگرانی میں قبر سے دو دنوں بعد لاش نکالی گئی تھی تاکہ والدین کی شکایت اور مطالبہ پر پوسٹ مارٹم کرایا جائے۔ قبر سے لاش نکالنے کے بعد پوسٹ مارٹم کے لیے گیا کے انوگرہ نارائن اسپتال میں لاش بھیجی گئی تھی۔ جہاں سے پوسٹ مارٹم کے بعد لاش اہل خانہ کو پولیس نے سونپ دیا اور پھر اُس کے بعد پولیس اور مجسٹریٹ کی نگرانی میں کوٹھی قبرستان میں دوبارہ تدفین عمل میں آئی۔ اس دوران رشتے داروں کے علاوہ سینکڑوں مقامی افراد بھی موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

علاقے کا ماحول خراب نہیں ہو اس وجہ سے پولیس کی بھی تعیناتی تھی۔ واضح ہو کہ گیا ہیڈ کوارٹر سے قریب سو کلو میٹر دوری پر واقع کوٹھی تھانہ کے بیکو پور گاؤں میں لڑکیوں کا ایک مدرسہ جامعۃ الصادقات ہے۔ جہاں پر کوٹھی بازار کے رہنے والے سہراب خلیفہ کی سولہ سال کی بیٹی کی موت ہوگئی تھی، مدرسہ کے ذمہ داروں کی طرف سے لواحقین کو اطلاع دی گئی تھی کہ لڑکی نے خودکشی کر لی ہے۔ اُس نے پنکھے سے لٹک کر خود کشی کی ہے۔ اس اطلاع کے بعد لڑکی کے چچا اور دوسرے رشتے داروں نے مدرسہ پہنچ کر دیکھا اور گاؤں کے درجنوں لوگوں کی موجودگی میں لاش گھر لے کر آئے اور اُس کے بعد اُسی رات صبح تین بجے کے بعد اس کی تدفین کردی گئی۔ لڑکی کے والد سہراب خلیفہ گاؤں میں نہیں تھے بلکہ وہ اپنے کام پر دلی میں تھے اور اُنہوں نے اپنے رشتے داروں کو زبانی طور پر تدفین کرنے کی اجازت دے دی تھی حالانکہ اس تدفین کے بعد والد اور رشتے داروں کا بیان اور عمل بدل گیا اور مدرسہ کے استاد پر ہی الزام لگاتے ہوئے پولیس اور انتظامیہ سے پوسٹ مارٹم کرانے کا مطالبہ کرنے لگے۔

والد سہراب اس بات کا اقرار کررہے ہیں کہ رشتے داروں نے ہی تدفین کی ہے کیونکہ وہ میت کو گھر میں نہیں رکھ سکتے اس کے پیچھے وہ وجہ بتاتے ہیں کہ مدرسہ والوں نے گھر پر میت بھیج دی تھی جس کے بعد ان کے رشتےدار میت نہیں رکھ سکتے تھے۔ اب اس عمل کے بعد علاقے میں رشتے داروں پر بھی سوال کھڑے ہورہے ہیں کہ آخر رشتے دار اور خاص کر لڑکی کے والدین نے خودکشی کرنے یا اچانک موت ہوئی اس معاملے کی اطلاع تھانہ کی پولیس کو کیوں نہیں دی۔ جب کہ کوٹھی تھانہ ان کے مکان سے چند ہی قدم کے فاصلے پر واقع ہے اور جس قبرستان میں تدفین کی گئی تھی وہ بھی تھانہ کے پچھلے حصے کے علاقے سے کچھ ہی دوری پر واقع ہے تو پھر پولیس کو خبر نہیں دینے کی وجہ کیا ہے؟

والد نے بیٹی کی موت کے بعد بھی بیٹی کا آخری دیدار کرنے کے لیے میت کو کچھ گھنٹے کیوں نہیں روکنے کو کہا؟ یا پھر دن ہونے کا انتظار کیوں نہیں کیا؟ عجلت میں تدفین کیوں کی گئی ہے؟ قبرستان کے باہر موجود ہزاروں کے مجمع میں موجود لوگ اپنی اپنی باتیں کررہے تھے۔ کوئی مدرسہ کو ہی ذمہ دار ٹھہرا رہا تھا تو کوئی رشتے داروں کے ذریعے عجلت میں تدفین پر سوال کھڑا کررہا تھا۔ وہیں علاقے میں اس لڑکی کی موت کے معاملے پر چرچا ہے اور لوگوں کے سامنے لڑکی کی موت معمہ بنی ہوئی ہے۔ تاہم دوسری جانب پولیس پورے معاملے کی تحقیقات میں مصروف ہے۔

گیا: گیا ضلع کے بیکو پور گاؤں میں قبر سے نکالی گئی سولہ سال کی طالبہ کی میت کی دوبارہ تدفین عمل میں آگئی ہے۔ گزشتہ مجسٹریٹ کی نگرانی میں قبر سے دو دنوں بعد لاش نکالی گئی تھی تاکہ والدین کی شکایت اور مطالبہ پر پوسٹ مارٹم کرایا جائے۔ قبر سے لاش نکالنے کے بعد پوسٹ مارٹم کے لیے گیا کے انوگرہ نارائن اسپتال میں لاش بھیجی گئی تھی۔ جہاں سے پوسٹ مارٹم کے بعد لاش اہل خانہ کو پولیس نے سونپ دیا اور پھر اُس کے بعد پولیس اور مجسٹریٹ کی نگرانی میں کوٹھی قبرستان میں دوبارہ تدفین عمل میں آئی۔ اس دوران رشتے داروں کے علاوہ سینکڑوں مقامی افراد بھی موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

علاقے کا ماحول خراب نہیں ہو اس وجہ سے پولیس کی بھی تعیناتی تھی۔ واضح ہو کہ گیا ہیڈ کوارٹر سے قریب سو کلو میٹر دوری پر واقع کوٹھی تھانہ کے بیکو پور گاؤں میں لڑکیوں کا ایک مدرسہ جامعۃ الصادقات ہے۔ جہاں پر کوٹھی بازار کے رہنے والے سہراب خلیفہ کی سولہ سال کی بیٹی کی موت ہوگئی تھی، مدرسہ کے ذمہ داروں کی طرف سے لواحقین کو اطلاع دی گئی تھی کہ لڑکی نے خودکشی کر لی ہے۔ اُس نے پنکھے سے لٹک کر خود کشی کی ہے۔ اس اطلاع کے بعد لڑکی کے چچا اور دوسرے رشتے داروں نے مدرسہ پہنچ کر دیکھا اور گاؤں کے درجنوں لوگوں کی موجودگی میں لاش گھر لے کر آئے اور اُس کے بعد اُسی رات صبح تین بجے کے بعد اس کی تدفین کردی گئی۔ لڑکی کے والد سہراب خلیفہ گاؤں میں نہیں تھے بلکہ وہ اپنے کام پر دلی میں تھے اور اُنہوں نے اپنے رشتے داروں کو زبانی طور پر تدفین کرنے کی اجازت دے دی تھی حالانکہ اس تدفین کے بعد والد اور رشتے داروں کا بیان اور عمل بدل گیا اور مدرسہ کے استاد پر ہی الزام لگاتے ہوئے پولیس اور انتظامیہ سے پوسٹ مارٹم کرانے کا مطالبہ کرنے لگے۔

والد سہراب اس بات کا اقرار کررہے ہیں کہ رشتے داروں نے ہی تدفین کی ہے کیونکہ وہ میت کو گھر میں نہیں رکھ سکتے اس کے پیچھے وہ وجہ بتاتے ہیں کہ مدرسہ والوں نے گھر پر میت بھیج دی تھی جس کے بعد ان کے رشتےدار میت نہیں رکھ سکتے تھے۔ اب اس عمل کے بعد علاقے میں رشتے داروں پر بھی سوال کھڑے ہورہے ہیں کہ آخر رشتے دار اور خاص کر لڑکی کے والدین نے خودکشی کرنے یا اچانک موت ہوئی اس معاملے کی اطلاع تھانہ کی پولیس کو کیوں نہیں دی۔ جب کہ کوٹھی تھانہ ان کے مکان سے چند ہی قدم کے فاصلے پر واقع ہے اور جس قبرستان میں تدفین کی گئی تھی وہ بھی تھانہ کے پچھلے حصے کے علاقے سے کچھ ہی دوری پر واقع ہے تو پھر پولیس کو خبر نہیں دینے کی وجہ کیا ہے؟

والد نے بیٹی کی موت کے بعد بھی بیٹی کا آخری دیدار کرنے کے لیے میت کو کچھ گھنٹے کیوں نہیں روکنے کو کہا؟ یا پھر دن ہونے کا انتظار کیوں نہیں کیا؟ عجلت میں تدفین کیوں کی گئی ہے؟ قبرستان کے باہر موجود ہزاروں کے مجمع میں موجود لوگ اپنی اپنی باتیں کررہے تھے۔ کوئی مدرسہ کو ہی ذمہ دار ٹھہرا رہا تھا تو کوئی رشتے داروں کے ذریعے عجلت میں تدفین پر سوال کھڑا کررہا تھا۔ وہیں علاقے میں اس لڑکی کی موت کے معاملے پر چرچا ہے اور لوگوں کے سامنے لڑکی کی موت معمہ بنی ہوئی ہے۔ تاہم دوسری جانب پولیس پورے معاملے کی تحقیقات میں مصروف ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.