ریاست بہار میں اسمبلی انتخابات 2020 جاری ہیں، یہاں مسلم آبادی 19 فیصد کے قریب ہے-
ان علاقوں میں مسلم آبادی 40 فیصد تک ہے۔
سنہ 2015 کے اسمبلی انتخاب میں 243 ارکان اسمبلی میں سے 24 مسلم امیدوار منتخب ہوئے تھے۔
ان میں سے 11 آڑ جے ڈی کے ٹکٹ پر چھ کانگریس کے ٹکٹ پر پانچ جے ڈی یو کے ٹکٹ پر، ایک سی پی آئی کے ٹکٹ پر اور ایک بی جے پی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔
اگر دربھنگہ ضلع کے 10 اسمبلی حلقوں کی بات کی جائے تو تو یہاں دس اسمبلی حلقہ میں سے چار اسمبلی حلقہ ایسے ہیں جہاں مسلم ووٹرز کی اکثریت ہے۔
وہیں 2015 میں دربھنگہ ضلع سے دو مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے دونوں آر جے ڈی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔
ایک علی نگر اسمبلی حلقہ سے عبدالباری صدیقی اور دوسرے کیوٹی اسمبلی حلقہ سے ڈاکٹر فراز فاطمی تھے۔
وہیں رواں برس 2020 کے اسمبلی انتخابات میں دربھنگہ کے دس اسمبلی حلقہ میں سے دو اسمبلی حلقہ کے لئے آر جے ڈی نے نے دو مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے۔
ایک کیوٹی اسمبلی حلقہ سے دوسرے گورا بورام اسمبلی حلقہ سے ہے۔
جب کہ کانگریس پارٹی نے ایک مسلم امیدوار جالے اسمبلی حلقے سے انتخابات میں اُتارا ہے ۔
مزید پڑھیں:بہار اسمبلی انتخابات: 35 مسلم امیدواروں کی بھی قسمت داؤ پر
موجودہ اسمبلی انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے ذریعے مسلم امیدواروں کو ترجیح کم دینے پر دربھنگہ کے عام شہری اور دانشوروں کا ملا جلا ردعمل ہے۔
اس پر ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے سماجی کارکن نیاز احمد نے کہا کہ ایک زمانے میں دربھنگہ سے چار چار مسلم ارکان اسمبلی منتخب ہوتے تھے تاہم اب ان میں کمی واقع ہو گئی ہے۔
چار اسمبلی حلقہ ایسے ہیں جہاں سے مسلم امیدوار آسانی سے جیت حاصل کر سکتے ہیں تاہم سیاسی جماعتوں نے ان علاقوں میں مسلم امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیے۔
پروفیسر محمد بدرالدین انصاری نے کہا کہ ہماری قوم کے لوگوں میں اتحاد نہیں ہیں ہماری قوم کے لوگ سبھی پارٹی میں ہوتے ہیں تو وہ پارٹی کے وفادار ہو جاتے ہیں اپنی قوم کے وفادار نہیں ہوتے وہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ انہی وجوہات کی وجہ سے ہماری قوم کے نمائندے کی کمی ہے اور دوسرے قوم کے لوگوں کی زیادہ ہے۔
جہانگیر قر یشی پیشے سے تاجر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہماری قوم کے لوگوں کو ٹکٹ کم ملتا ہے یہ سہی ہے تاہم موجودہ دور میں یہ فیصلہ سہی ہے۔
سرفراز صدیقی(ٹیچر) نے کہا کہ آزادی کے بعد سے مسلمانوں نے سیاسی جماعتوں کو اپنا محافظ سمجھنا شروع کر دیا ہے، اسی چیز کا فائدہ سبھی سیاسی جماعتوں نے اُٹھانا شروع کر دیا۔
ان کا مزید کہا کہ مسلمان تعلیمی،معاشی اور سیاسی میدان میں پیچھے ہیں، انہیں متحد کرنا ضروری ہے۔