بھارت میں مسلمانوں کے لئے مذہبی تعلیمات کے ساتھ عصری تعلیم کے حصول کے لئے داغ بیل ڈالنے عظیم مفکر سرسید احمد خان کی کاوشیں کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ عصری تعلیم کے زیور سے قو م و ملت کے نونہالوں کو آراستہ کرنے کے لئے سر سید احمد خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے ادارے کی بنیاد ڈالی تھی۔ سر سید احمد خان جہاں ایک طرف مفکر، مدبر، انشاء پرداز کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں وہیں انہیں مصلح قوم بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بھارت میں مسلمانوں کے لئے جدید تعلیم کا جو خاکہ تیار کیا تھا اس کی معنویت آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔
مذکورہ باتیں اورینٹل کالج پٹنہ میں شعبہ اردو کے استاذ پروفیسر شکیل احمد قاسمی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ بہار والوں کے لئے یہ خوش بختی کی بات ہے کہ سر سید احمد خان دو بار بہار آ چکے ہیں۔اور تعلیم کو عام کرنے کے پیش نظر متعدد مقامات پر سوسائٹی قائم کی۔ پروفیسر قاسمی نے کہا کہ سر سید احمد خان نے 1857 کو بہت قریب سے دیکھا تھا، وہ مسلمانوں کی زبوں حالی پر بے چین رہتے تھے، اسی پس منظر میں انہوں نے مدرسۃ العلوم کی بنیاد ڈالی تھی جو آگے چل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے پوری دنیا میں معروف ہوا۔
مزید پڑھیں:سرسید احمد خان کے ویژن اور مشن کو آگے بڑھانے کی ضرورت
انہو ں نے مزیدکہا کہ عام طورپر لوگ یہ کہتے ہیں سر سید احمد خان دینی علوم کے بالمقابل عصری علوم کی ترویج اشاعت پر زیادہ توجہ دی۔ جبکہ حقیقت یہ کہ دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ کو قائم کرنے والے عظیم افراد ایک ہی استاد مولانا مملوک علی کے شاگرد تھے. آج اگر یہ دونوں ادارے نہیں ہوتے تو بھارت میں تعلیم کا رواج اس قدر عام نہیں ہوتا۔