پٹنہ: ہندستان کے سابق صدر جمہوریہ اور ماہر تعلیمات ڈاکٹر ذاکر حسین بیسویں صدی کے ان چند دانشوروں میں ہیں جن کی شخصیت میں مختلف خوشنما رنگوں کی آمیزش تھی، وہ ایک سچے دیش بھکت، ماہر تعلیمات، اعلی درجہ کے ادیب اور سیاست کے نبض شناس تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو بنانے، سنوارنے اور نکھارنے میں انھوں نے جو رول کیا، ایسی مثال بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔
خدا بخش لائبریری کی ڈائریکٹر ڈاکٹر شائستہ بیدار نے کہا کہ انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر، بہار کے گورنر، نائب صدر جمہوریہ اور صدر جمہوریہ کی حیثیت سے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ خدا بخش لائبریری سے داکٹر ذاکر حسین اکر کا تعلق ہمیشہ مشفقانہ اور ہمدردانہ رہا۔ بہار کی گورنری کے زمانے، 1958 میں انھوں نے خدا بخش لائبریری کا دورہ کیا اور یہاں کے نوادرات سے بہت متاثر ہوئے۔ اس وقت یہ لائبریری بہار سرکار کے ماتحت تھی۔
انہوں نے کہاکہ یہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ 1969 میں پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعہ اس لائبریری کو قومی اہمیت کا ادارہ تسلیم کیا گیا اور مرکزی سرکار سے منسلک کر دیا گیا۔ سابق صدر ذاکر حسین کی خدمات کے اعتراف میں خدا بخش لائبریری نے چند اہم کتابیں 'ذاکر صاحب ذاتی یادیں (تین جلدیں)، مقالات ذاکر (چار جلدیں)، نقوش ذاکر، ڈاکٹر ذاکر حسین حیات و خدمات' شائع کیں۔ خدا بخش لائبریری نے اپنے محسنوں کی یاد کو ہمیشہ تازہ کیا ہے۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر سنجے کمار نے اپنے خطاب میں کہا کہ امرت مہوتسو کے موقعے پر ان شخصیات کو یاد کرنا جنھوں نے جدید بھارت کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا، اپنے آپ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ان شخصیات میں سابق ڈاکٹر ذاکر حسین ایک نمایاں نام ہے۔ وہ مختلف الجہات شخصیت کے مالک تھے، مترجم، ادیب، کہانی نویس، سیاست کے رمزشناس، تعلیمات کے اسرار و رموز کے ماہر، یہ سب خوبیاں بیک وقت ان میں جمع تھیں۔ شہیدوں کے خون سے زیادہ روشن وہ تحریر ہوتی ہے جو ایک اسکالر لکھتا ہے۔ گاندھی جی نے پہلی ملاقات کے وقت ذاکر صاحب سے دریافت کیا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کیا کرتے ہیں۔