ETV Bharat / state

Freedom Fighter Shaheed Pir Ali Khan آزادی کے متوالے شہید پیر علی خان کے تئیں حکومت پر عدم توجہی کا الزام

1820ء میں محمد پور ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے پیر علی خان کے اجداد اعظم گڑھ سے ہجرت کر کے پٹنہ کے گرہٹہ محلہ میں سکونت اختیار کی تھی، جہاں ان کی سرپرستی شہر کے نامور زمیندار میر عبداللہ نے کی۔ میر عبداللہ کے تعاون سے انہوں نے چھوٹا سا کتب خانہ کھول لیا جس کا شمار چند دنوں میں ہی انقلابی مراکز میں ہونے لگا۔ Accusation of inattention on the government regarding Shaheed Pir Ali Khan

تصویر
تصویر
author img

By

Published : Nov 7, 2022, 12:24 PM IST

Updated : Nov 8, 2022, 8:48 AM IST

پٹنہ: 1857 کی جنگ آزادی تاریخ ہند میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ ملک کی آزادی کے لیے بلاتفریق تمام مذاہب کے مجاہدین آزادی نے شانہ بشانہ انگریزوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں 15 اگست 1947 کو ہمارا ملک آزاد ہوا، مگر اس تحریک کے سرفہرست بیشتر مجاہدین کی حیات اور ان کے کارناموں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا اور انہیں نظر انداز کردیا گیا۔ ایسے ہی گمنام مجاہدین میں ایک ہیں شہید پیر علی خان، جن کے کارنامے اور بہادری کے قصے تاریخ کے اوراق میں تو محفوظ ہیں مگر عام زندگی میں لوگ انہیں فراموش کرتے جا رہے ہیں۔

شہید پیر علی خان


1820ء میں محمد پو ر ضلع اعظم گڑ ھ میں پیدا ہونے والے پیر علی خان کے اجداد اعظم گڑھ سے ہجرت کر کے پٹنہ کے گرہٹہ محلہ میں سکونت اختیار کی تھی، جہاں ان کی سرپرستی شہرکے نامور زمیندار میر عبداللہ نے کی۔ میر عبداللہ کے تعاون سے انہوں نے چھوٹا سا کتب خانہ کھول لیا جس کا شمار چند دنوں میں ہی انقلابی مراکز میں ہونے لگا کیونکہ انقلابی روش پر چلنے کے بعد پیر علی خاں نے لوگوں کو انقلابی ادب بھی مہیا کرانا شروع کر دیا تھا مگر وہاں کتابیں تو کم فروخت ہوتی تھیں مگر آزادی کے تانے بانے زیادہ بنے جاتے تھے۔

پیر علی کے انقلابی سرگرمیوں کی خبر جب اس وقت پٹنہ کے انگریز کمشنر ویلیم ٹیلر کو ملی تو انہوں نے اپنے مخبروں کو پیر علی کی جاسوسی پر لگایا دیا۔ جب پیر علی کی سربراہی میں پٹنہ کے دیگر مجاہدوں نے 3 جولائی 1857ء کو گلزار باغ میں واقع انگریز کے انتظامی عمارت پر حملہ کر دیا جس میں ایک انگریز افسر ڈاکٹر لائل کی موت ہو گئی، اسی پاداش میں انگریزی حکومت نے پٹنہ کے گاندھی میدان کے جنوبی حصے میں انہیں سرعام پھانسی پر لٹکا دیا اور پیر علی ملک کی آزادی کی خاطر ہنستے ہنستے یہ کہتے ہوئے جان دے دی کہ "زندگی میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب جان بچانے کی تمنا ہوتی ہے لیکن کچھ ایسے لمحے بھی ہوتے ہیں جن میں جان قربان کرنا ہی سب سے بڑی نیکی اورخواہش ہوتی ہے۔ یہ لمحہ ان ہی میں سے ایک ہے کہ جب موت کو گلے لگانا ابدی زندگی پانا ہے۔"

ایسے مجاہد پیر علی کو یاد کرنے کے لیے اور نئی نسلوں کو ایسے مجاہدین کی زندگی اور بہادری سے واقف کرانے کے لیے حکومتی سطح سے کسی محکمہ نے کبھی خراج عقیدت یا پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا اور نہ کسی ملی تنظیم نے اس جانب توجہ کی۔ حالانکہ نتیش حکومت میں ہی پٹنہ کے صرف دو جگہوں پر پیر علی کے نام سے منسوب ایک پارک اور سڑک ضرور بنائی گئی۔ اب عوام سرکاری سطح پر شہید پیر علی کو یاد کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ادھر حکومت کے نمائندے افضل عباس کہتے ہیں کہ مجاہدین کو یاد کرنے کی ذمہ داری حکومت سے زیادہ ہم لوگوں کی ہے، جتنے بھی اس طرح کے مجاہدین ہیں سبھی کے بارے میں حکومت کو آگاہ کیا جائے تاکہ حکومت اس پر کوئی خاکہ بنا سکے۔

مزید پڑھیں:Seminar on Usman Ghani in Patna مجاہد آزادی و صحافی مولانا عثمان غنی پر 13 اکتوبر کو سمینار

پٹنہ: 1857 کی جنگ آزادی تاریخ ہند میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ ملک کی آزادی کے لیے بلاتفریق تمام مذاہب کے مجاہدین آزادی نے شانہ بشانہ انگریزوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں 15 اگست 1947 کو ہمارا ملک آزاد ہوا، مگر اس تحریک کے سرفہرست بیشتر مجاہدین کی حیات اور ان کے کارناموں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا اور انہیں نظر انداز کردیا گیا۔ ایسے ہی گمنام مجاہدین میں ایک ہیں شہید پیر علی خان، جن کے کارنامے اور بہادری کے قصے تاریخ کے اوراق میں تو محفوظ ہیں مگر عام زندگی میں لوگ انہیں فراموش کرتے جا رہے ہیں۔

شہید پیر علی خان


1820ء میں محمد پو ر ضلع اعظم گڑ ھ میں پیدا ہونے والے پیر علی خان کے اجداد اعظم گڑھ سے ہجرت کر کے پٹنہ کے گرہٹہ محلہ میں سکونت اختیار کی تھی، جہاں ان کی سرپرستی شہرکے نامور زمیندار میر عبداللہ نے کی۔ میر عبداللہ کے تعاون سے انہوں نے چھوٹا سا کتب خانہ کھول لیا جس کا شمار چند دنوں میں ہی انقلابی مراکز میں ہونے لگا کیونکہ انقلابی روش پر چلنے کے بعد پیر علی خاں نے لوگوں کو انقلابی ادب بھی مہیا کرانا شروع کر دیا تھا مگر وہاں کتابیں تو کم فروخت ہوتی تھیں مگر آزادی کے تانے بانے زیادہ بنے جاتے تھے۔

پیر علی کے انقلابی سرگرمیوں کی خبر جب اس وقت پٹنہ کے انگریز کمشنر ویلیم ٹیلر کو ملی تو انہوں نے اپنے مخبروں کو پیر علی کی جاسوسی پر لگایا دیا۔ جب پیر علی کی سربراہی میں پٹنہ کے دیگر مجاہدوں نے 3 جولائی 1857ء کو گلزار باغ میں واقع انگریز کے انتظامی عمارت پر حملہ کر دیا جس میں ایک انگریز افسر ڈاکٹر لائل کی موت ہو گئی، اسی پاداش میں انگریزی حکومت نے پٹنہ کے گاندھی میدان کے جنوبی حصے میں انہیں سرعام پھانسی پر لٹکا دیا اور پیر علی ملک کی آزادی کی خاطر ہنستے ہنستے یہ کہتے ہوئے جان دے دی کہ "زندگی میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب جان بچانے کی تمنا ہوتی ہے لیکن کچھ ایسے لمحے بھی ہوتے ہیں جن میں جان قربان کرنا ہی سب سے بڑی نیکی اورخواہش ہوتی ہے۔ یہ لمحہ ان ہی میں سے ایک ہے کہ جب موت کو گلے لگانا ابدی زندگی پانا ہے۔"

ایسے مجاہد پیر علی کو یاد کرنے کے لیے اور نئی نسلوں کو ایسے مجاہدین کی زندگی اور بہادری سے واقف کرانے کے لیے حکومتی سطح سے کسی محکمہ نے کبھی خراج عقیدت یا پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا اور نہ کسی ملی تنظیم نے اس جانب توجہ کی۔ حالانکہ نتیش حکومت میں ہی پٹنہ کے صرف دو جگہوں پر پیر علی کے نام سے منسوب ایک پارک اور سڑک ضرور بنائی گئی۔ اب عوام سرکاری سطح پر شہید پیر علی کو یاد کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ادھر حکومت کے نمائندے افضل عباس کہتے ہیں کہ مجاہدین کو یاد کرنے کی ذمہ داری حکومت سے زیادہ ہم لوگوں کی ہے، جتنے بھی اس طرح کے مجاہدین ہیں سبھی کے بارے میں حکومت کو آگاہ کیا جائے تاکہ حکومت اس پر کوئی خاکہ بنا سکے۔

مزید پڑھیں:Seminar on Usman Ghani in Patna مجاہد آزادی و صحافی مولانا عثمان غنی پر 13 اکتوبر کو سمینار

Last Updated : Nov 8, 2022, 8:48 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.