اس جہاں کی روایت ہے کہ یہاں سے انسان کے رخصت پر احباب آخری سفر تزک و احتشام کے ساتھ ادا کرتے ہیں، اسی مقصد کے تحت 2010 میں اس وقت کے رکن پارلیمان پردیپ کمار سنگھ کے فنڈ سے ارریہ ضلع میں ہندو بھائیوں کے لئے واحد آخری رسومات ادا ئیگی کے لیے مردہ گھر کا قیام عمل میں آیا تھا تاکہ برسات کے دنوں میں مردہ کو جلانے میں کسی طرح کی پریشانی لاحق نہ ہو۔ چند مہینوں میں مردہ گھر بن کر تیار بھی ہو گیا تھا، مگر برسوں گزرنے کے بعد بھی آج تک اس کا افتتاح نہ ہو سکا۔
نتیجتاً اب یہ مردہ گھر پوری طرح سے کھنڈر میں تبدیل ہو گیا ہے۔
برسوں سے بند پڑے یہ مردہ گھر نشا کرنے والوں اور قمار بازوں کا اڈہ بن گیا ہے۔ اس کی ظاہری حالت دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس مردہ گھر میں چاروں طرف سے درخت نکل آئے ہیں۔
عمارت کے اوپر لگی ٹین میں کئی چھید ہو گئے ہیں، گیٹ میں لگے دروازے اکھاڑ دیے گئے ہیں، یہاں دن میں بھی وحشت طاری ہونے جیسا احساس ہوتا ہے ۔
ایک بڑے احاطہ میں بنے اس مردہ گھر کی تعمیر میں تقریباً پچاس لاکھ روپے کا صرفہ ہوا تھا، اس گھر میں ایک ساتھ چھ مردہ کے جلانے کا نظم کیا گیا تھا، اس کے علاوہ باہر سے آنے والوں کے بیٹھنے کے لئے سیمنٹ کا بینچ اور استنجا خانہ کی بھی تعمیر ہوئی تھی، مگر صحیح رکھ رکھاؤ نہ ہونے سے یہ سب ٹوٹ گئے۔
اس مردہ گھر کے شروع ہونے سے برسات کے دنوں نعش کو جلانے میں ہونے والی پریشانیوں سے بچا جا سکتا تھا، ساتھ ہی ماحولیاتی اعتبار سے بھی آس پاس کے علاقے لکڑی کے دھواں سے محفوظ رہتے۔
اس وقت ارریہ کے پرمان ندی کے کنارے روزانہ دو سے تین نعش نذر آتش ہوتی ہے، سیلاب کے زمانے میں چاروں طرف پھلیے پانی کی وجہ سے نعش کو گنجان آبادی یا علاقے سے متصل ہی جلانا پڑتا ہے، جس کی مخالفت آئے دن مقامی لوگ کرتے ہیں۔
شہر کے سماجی کارکن اویناش آنند اس بابت کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ ہم لوگوں کو پریشانی برسات کے دنوں ہی جھیلنی پڑتی ہے، 2010 کے بعد سے کسی نمائندہ یا ضلع انتظامیہ کی جانب سے اس جانب توجہ نہیں دی گئی۔
وہیں دوسری جانب موجودہ رکن پارلیمان پردیپ کمار سنگھ جن کے 2010 کے مدت میں اس مردہ گھر کا قیام عمل میں آیا تھا، کہتے ہیں ہماری پوری کوشش ہے کہ جہاں اس عمارت کو دوبارہ سے ٹھیک کر عوام کے حوالے جلد سے جلد کر دیا جائے۔
بہرحال، اس مردہ گھر کے شروع ہونے سے برسات کے دنوں میں ہندو بھائیوں کے ساتھ پیش آنے والی پریشانی سے مکمل نجات مل جائے گی۔ ساتھ ہی ماحولیات کا تحفظ بھی ہو سکے گا۔