گیا: ریاست بہار کے گیا ضلع کے گاؤں دیہات کی مسلم خواتین نے بھی روزگار کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ خاص طور پر وہ روزگار جو گھر بیٹھے کیا جاسکتا ہے حالانکہ اس میں اُنہیں سخت محنت و مشقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان خواتین کی محنت گھر کے مردوں کے لیے نا صرف مددگار ثابت ہوئی ہیں بلکہ اب اس سے انکی مالی حالت بھی بہتر ہو رہی ہے چونکہ یہ خواتین ناخواندہ ہیں تو انکا یہ کام اور جذبہ مزید خاص ہو جاتا ہے۔ تجارت اور سرمایہ داری نظام میں انکی شمولیت آنے والے سالوں میں سماجی اور مالی تفریق میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔
گیا ضلع کے بانکے بازار بلاک کے خیرا گاؤں کا ایک ایسا ہی گھر افسانہ خاتون کا ہے۔ افسانہ خاتون اپنے گھر میں ہی کھوکڑی پیدوار ذخائر کر رکھا ہے، جس میں چاول کا آٹا، آرہروٹ اور دوسرے سامان سے تیار کھانے کا یہ ایک سامان ہے۔ اسے گھر میں عورتیں بناتی ہیں اور گھر کے مرد گاوں دیہات کی دکانوں میں سپلائی کرتے ہیں ، اس سے انکی ہر دن کی پانچ سو کے قریب آمدنی ہوجاتی ہے، جس سے وہ اپنے والدین اور بچوں کی پرورش کررہے ہیں۔ افسانہ خاتون کے شوہر زری کا کام کرتے تھے تاہم کورونا کے بعد انکا کام ختم ہوگیا جسکے بعد افسانہ نے ' جیویکا ' تنظیم سے تربیت حاصل کرکے کھوکری کو بنانا شروع کیا حالانکہ جیویکا کی طرف سے صرف انہیں تربیت دی گئی۔ انہیں مالی مدد نہیں ملی ہے۔
اس موقع پر افسانہ نے بتایاکہ انہوں نے 20 ہزار روپئے سے اپنا روزگار شروع کیا۔ مارکیٹ میں اسکا مطالبہ ہے تاہم پیسوں کی کمی کے باعث وہ مطالبے پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ بینکوں سے قرض کے لیے درخواست بھی دی ہے تاہم وہ بھی ابھی منظور نہیں ہوئی حالانکہ وہ اس کاروبار سے خوش ہیں اور کہتی ہیں کہ روزہ مرہ کی ضروریات کے ساتھ بچوں کی تعلیم وت ربیت اسی کام کی آمدنی سے پوری ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آمدنی اتنی ہوجاتی ہے کہ کفالت میں پریشانی نہیں ہوتی ہے البتہ یہ کہ وہ پیسے کی سیونگ نہیں کرپارہی ہیں لیکن پھر بھی وہ خوش ہیں۔
مزید پڑھیں:۔ بھوپال: خواتین کو خود کفیل بنانے کے لئے ٹریننگ کیمپ
وہیں محمد مستقیم انصاری کہتے ہیں کہ میں سخت محنت کرتا ہوں اور کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے کہ خود محنت کریں۔ انہوں نے کہا کہ اپنی کامیابی کے راستے ہموار کریں۔ کھوکھری کھانے کا ایک سامان ہے جس کو تیار کرنے میں وقت اور محنت لگتی ہے۔ اسکو خشک کرنے کے بعد اسے تیل میں تلا جاتا ہے اور پھر اسکی پیکنگ کی جاتی ہے۔ ایک بورے سے سو سے زیادہ پیکٹ پیک ہوتی ہے۔ ایک پیکٹ کی قیمت چالیس سے پچاس روپے تک ہے جبکہ ایک بورے کھوکھری کو تیار کرنے میں ایک ہزار سے گیارہ سو روپے تک کے اخراجات ہیں۔ ایک بوری کھوکھری میں تین سو تک کی آمدنی ہے۔ انہوں نے بھی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کہتی ہے کہ چھوٹا ہو یا بڑا ہرطرح کے خود روزگار کے لیے مدد کی جائے گی لیکن یہاں گاوں میں کوئی بھی روزگار صنعت کرنے والوں کو حکومت کے محکموں سے مالی مدد نہیں ملی ہے، اگر مدد ملتی تو انکا کام اور بڑھتا اور وہ دوسرے کو بھی روزگار فراہم کرتے۔
ضلع ہیڈکوارٹر سے قریب 60 کلومیٹردور اسٹیٹ ہائی وے پر واقع بانکے بازار کے مختلف گاوں میں کھوکھڑی چپس بنائی جارہی ہے، جیویکا دفتر بانکے بازار کے مطابق پچاس سے زیادہ گھروں کی خواتین اس کام کو کررہی ہیں۔ چھوٹے روزگار کے طور پر یہ کام ابھرا ہے۔ کھوکڑی کو بڑے بوڑھے بچے شوق سے کھاتے ہیں۔ اس کے کئی اقسام ہیں۔ ایک پاپڑ بھی ہے جو ہردسترخوان کی زینت ہوتی ہے۔ اس کا میٹریل کانپور اترپردیش سے منگوایا جاتا ہے۔ واضح ہوکہ بانکے بازار کے علاقوں میں مسلمانوں کی بڑی آبادی بستی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ یہاں روزگار کے لیے کاشتکاری کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا تاہم اب تبدیلی آئی ہے اور چھوٹے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ خاص اور مثبت بات یہ ہے کہ علاقے کی مسلم خواتین روزگار سے جڑی ہیں کیونکہ گاوں دیہات کے مسلم گھرانوں میں خواتین کا روزگار سے جڑ کر کام کرنا پسند نہیں کیا جاتا تھا تاہم اب سبھی اس کو ترجیح دے رہے ہیں افسانہ خاتون جیسی کئی خواتین ہیں جنکی مالی حالت ٹھیک نہیں تھی لیکن اب وہ اس طرح کام سے اچھی آمدنی کرلیتی ہیں۔