جھارکھنڈ کے شہر رام گھڑھ کے دُساد محلہ میں چند مسلم نوجوانوں نے کورونا وائرس وبأ کے دوران نہ صرف ایک پڑوسی ہندو خاتون کی آخری رسومات ادا کی بلکہ اس خاتون کی ارتھی کو دو کلومیٹر دور دامودر ندی کے نزد واقع شمشان گھاٹ کھندھا دیتے ہوئے پہنچایا اور اس کا پورا انتطام بھی مسلم نوجوانوں نے ہی کیا۔
رام گڑھ میں لاک ڈاؤن کے درمیان ایک ہندو خاتون کی موت واقع ہوگئی اور اس کے اہلخانہ و رشتہ داروں نے خاتون کی آخری رسومات ادا کرنے سے انکار کردیا۔
جس کے بعد علاقے میں رہائش پذیر مسلمانوں نے نہ صرف اس خاتون کی آخری رسومات اداکیں بلکہ باری باری ارتھی کو کندھے پر اٹھا کر دو کلو میٹر دور شمشان گھاٹ تک پہنچایا جہاں اس خاتون کے بیٹے پروشوتم کمار نے ہندو رسم و رواج کے مطابق خاتون کی چِتا کو آگ لگائی۔
دراصل علاقے میں رہائش پذیر ایک ہندو خاتون کا انتقال ہوگیا تھا اور ان کے بیٹے پروشوتم کمار کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ان حالات میں کیا کریں اور اس عالمی وبأ کے خوف کے دوران کیسے اپنی والدہ کی آخری رسومات کو انجام دیں؟
لاک ڈاؤن کے سبب ان کے خاندان میں ایسا کوئی بھی نہیں تھا جو ان کی والدہ کی ارتھی کو کندھا دے سکے اور اس تعلق سے انھوں اپنے ہندو پڑوسیوں سے مدد طلب کی لیکن کورونا کے خوف کے سبب سبھی نے منہ پھیر لیا اور خاتون کی آخری رسومات کی ادائیگی میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔
جس کے بعد پروشوتم کمار نے اپنے مسلم پڑسیوں سے مدد طلب کی اور ان کی ایک درخواست پر علاقے کے تمام ذمہ دار مسلم نوجوانوں نے پرشوتم کمار کی ڈھارس بندھائی اور انھیں ہر ممکن مدد کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
علاقے کے سبھی مسلم نوجوانوں نے خود ہی خاتون کی آخری رسومات کا انتظام کیا اور ارتھی کو کندھا دے کر شمشان گھاٹ تک لے گئے۔
پروشوتم کمار کے پڑوسی محمد عمران، محمد شاہنواز، محمد عادل، محمد عاشق، محمد شمیع، اور دیگر ذمہ دار نوجوان نے اس معاملے میں بھرپور تعاون کیا۔