اقلیتوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے اور روزگار کی فراہمی کے لیے نتیش حکومت نے "وزیراعلیٰ اقلیتی روز گار قرض" منصوبے کا آغاز جوش و جذبے سے کیا تھا، تاہم سرکاری افسران کی بے توجہی نے اس کا جنازہ نکال دیا ہے۔
مالیاتی کارپوریشن پٹنہ کی سستی کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ بہار کے کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں 2017 سے اب تک مکمل طور پر قرض کی رقم کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔ حالانکہ محکمہ اقلیتی فلاح کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وزیر اعلیٰ اقلیتی روزگار قرض منصوبہ کو مکمل طور پر نافذ کیا گیا ہے اور قرض کے لیے مختص پوری رقم خرچ کی جا رہی ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے ۔
اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کی مانیں تو بہار میں 100 کروڑ کا بجٹ اس مد میں ہرسال خرچ ہونا ہے جبکہ اب تک کسی مالی سال میں اوسطاً 35 فیصد سے زیادہ رقم خرچ نہیں ہو پائی ہے۔
اگر ضلع سطح پر بھی رقم کے خرچ کے اعداد و شمار دیکھیں تو کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں 2017 سے ہی پوری رقم کی ادائیگی نہیں ہوئی ہے۔ ان میں ایک ضلع گیا بھی شامل ہے۔
ضلع گیا میں 2017-18 کے لیے تقریباً ایک ہزار درخواستیں ضلع اقلیتی فلاح دفتر کو موصول ہوئی تھیں۔ اس کے بعد سلیکشن کمیٹی کی طرف سے نام منتخب ہونے کے بعد 90 درخواست دہندگان کے کاغذات معاہدہ پیپر کے ساتھ مالیاتی کارپوریشن پٹنہ کو بھیجے گئے تاکہ 90 افراد کو رقم ملے لیکن اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کچھوے کی چال چلتے ہوئے 90 میں صرف 65 کو ہی قرض دیا جبکہ ابھی بھی 35 کو ملنا باقی ہے۔
اسی طرح 2019.20 کا بھی معاملہ لٹکا ہوا ہے، ابھی تک ضلع گیا میں کاغذاتی کارروائی بھی مکمل نہیں ہوئی ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ابھی 2020.21 کی رقم درخواست دہندگان کو ملتی لیکن مالیاتی کارپوریشن کی سستی کا یہ نتیجہ ہے کہ سال 2019.20 کے لیے ابھی باونڈ پیپر بھروانے کی کارروائی شروع ہوئی ہے۔
دراصل وزیر اعلیٰ اقلیتی قرض منصوبہ کا آغاز 2012 میں ہوا تھا گویا کہ 8 برسوں میں بھی حکومت کی قرض فراہمی کا منصوبہ زمینی سطح صحیح سے نہیں اتر پائیں ہیں۔
کیا کہتے ہیں افسر
گیا ڈویژنل انچارج افسر دھرمیش کمار کہتے ہیں کہ سال 2018 کے لیے ضلع کمیٹی سے منتخب درخواست دہندگان کے کاغذاتی کاروائی کرکے بھیج دیا گیا تھا، جس میں نوے افراد کا نام شامل تھا، 65 مستفدین کے کھاتے میں رقم بھیج دی گئی ہے جبکہ بقیہ 35 کے بھیجنے کی کارروائی مالیاتی کارپوریشن کی جانب سے جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2019.20 کے لیے قرض تقسیم ہونے میں تاخیر کی وجہ لاک ڈاون اور بہار اسمبلی انتخابات کو لیکر نافذ ہوئے ضابطہ اخلاق ہے۔
مالیاتی کارپوریشن جب کارروائی آگے بڑھانے کی ہدایت دیتا ہے تبھی کام ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا اب کاروائی تیزی کے ساتھ ہوگی۔
اقلیتی روز گار قرض منصوبہ کے اہم نکات
100 کروڈ کا بجٹ اس مد میں ہر سال خرچ ہونا ہے۔ 2012 سے وزیراعلی اقلیتی روزگار منصوبے کا آغاز ہوا۔ پہلے اس میں صرف 25 کروڑ روپے کا بجٹ تھا جو اب بڑھ کر سو کروڑ روپے سالانہ ہے۔
امیدواروں کی آمدنی سالانہ چار لاکھ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک لاکھ سے پانچ لاکھ تک کا روزگار قرض دیے جانے کا نظم ہے۔ ایک لاکھ تک کے قرض میں کسی کی گارنٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ دو سے پانچ لاکھ کے روزگار قرض پر 5 فیصد سالانہ سود شرح ہے۔ قرض لینے کی تاریخ سے تین مہینے تک اس رقم پر کوئی سود نہیں لیا جاتا ہے۔ قرض کی رقم بیس قسطوں میں ادا کرنا ہوتا ہے۔
سوال یہ کہ جب قرض ہی دینا ہے تو پھر محکمہ رقم تقسیم خرچ کرنے میں سالوں کا وقت کیوں لگاتا ہے؟ بہار کی سیاست میں حکمران جماعت کا دعوی ہوتاہے کہ ان کی حکومت اقلیتوں کی مالی حالت مستحکم کرنے کے لیے روزگار فراہم کرنے کی غرض سے قرض دے رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اقلیتی روزگار منصوبہ آج تک صحیح ڈھنگ سے زمینی سطح پر نہیں اترا ہے۔
مزید پڑھیں:
انوراگ کشیپ اور تاپسی پنو کے گھر پر انکم ٹیکس کا چھاپہ
محکمہ اقلیتی فلاح کی جاری سالانہ رپورٹ بتاتی ہے کہ سنہ 2012 سے اب تک بہار میں صرف 15312 لوگوں کے درمیان محض 206 کروڈ روپے تقسیم ہوئے ہیں۔