ETV Bharat / state

مولانا رحمانیؒ کی رحلت ملت اسلامیہ کے لیے بڑا دھچکا: مولانا عبدالسبحان رحمانی

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری، امیر شریعت، مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ کے سانحہ ارتحال پر ان کے قریب ترین شاگرد رشید اور دیرینہ رفیق مولانا عبدالسبحان رحمانی کی ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت۔

author img

By

Published : Apr 3, 2021, 8:29 PM IST

آج مورخہ 3 اپریل2021 کو ایسا غمناک اور المناک واقعہ پیش آیا کہ زبان بند اور دل بے قابو ہے۔ مولانا عبدالسبحان رحمانی کا کہنا ہے کہ یہ المناک اور غم ناک خبر سن کر انہیں ایسا لگا کہ جیسے کے اچانک ان پر بجلی گری۔

انہوں نے کہا کہ 'میری پوری زندگی ان کے ساتھ گزری۔ ذرا ہوش سنبھالا تبھی سے ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ میں نے انہیں خلوت اور جلوت دونوں میں دیکھا ہے۔ اتنا ذہین، دور رس اور جُری آدمی میں نے اس ملک میں نہیں دیکھا۔

میں نے دین کے معاملے میں اتنی مضبوط شخصیت ملک و بیرون ملک بھی بھی کہیں نہیں دیکھی۔ تادم اخیر میرا رابطہ اور تعلق ان سے رہا۔

وہ میرے لیے والدین کی حیثیت رکھتے تھے۔ انتہائی درد اور محبت کے ساتھ انہوں ںے ہماری رہنمائی اور آبیاری دونوں کی۔ پالا پوسا بھی اور جامعہ رحمانی میں تعلیم مکمل کروانے کے بعد وہیں پڑھانے کا موقع بھی دیا۔

استاذ بھی تھے، مربی اور رہنما بھی تھے۔ عمر کے لحاظ سے ہمارے مابین زیادہ فاصلہ نہیں تھا لیکن انہون ںے ایک مخلص و ہمدرد، ایک عزیز کی طرح، قریبی بھائی کی طرح رکھا اور اس طرح پوری زندگی جامعہ رحمانی میں ہم نے گزار دی۔ اور اس محبت میں کبھی رتی بھر بھی فرق نہیں آیا یہی وجہ ہے کہ میں جامعہ رحمانی کا ہی ہوکر رہ گیا۔

میں نے ان کے والد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو بھی قریب سے دیکھا ہے۔ یہ اپنی زندگی میں پچاسوں مدارس کے ذمہ دار رہے۔ دین و ملت کا کام اس جرات و بے باکی اور ذہانت کے ساتھ کیا کہ آج ایسی ایک شخصیت ملنی مشکل ہے۔ اب اللہ تعالی نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ یہ تو مشیت کا فیصلہ ہے لیکن ابھی ان کی ضروت قوم و ملت کو تھی۔

جو حالات ابھی ملک میں پیدا ہو رہے ہیں اور جن حالات سے مسلمان دو چار ہیں ایسے موقع پر جرات مندی کے ساتھ مسلمانوں کے مسائل حل کرنا اور بڑے بڑے امور میں رہنمائی کرنا ان کی انفرادیت تھی۔ ابھی ہندوستان کا ہر چھوٹا بڑا ان کی کمی کو محسوس کرے گا۔ ان کے جانے کے بعد ان کی اہمیت مزید محسوس کی جائے گی۔

میں اس وقت کلکتہ میں ہوں۔ جیسے ہی یہ خبر ملی میرے اوپر جو ذاتی اثر تھا وہ تو تھا ہی، کلکتہ میں جتنے جاننے والے تھے اور یہاں وہاں پھیلے ہوئے اس تسلسل کے ساتھ ان کا فون آنا شروع ہوا کہ ایسا لگا کہ قوم و ملت پر بجلی گرگئی۔

بات کرتے ہوئے بہت سے لوگ زاروقطار رو رہے تھے، میں انہیں بھی اطمینان بھی دلا رہا تھا اور خود کو بھی مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان کے فراق اور جدائی میں آنسو بہانے والوں کو اطمینان دلا رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ اللہ کوئی نعم البدل عطا کرے گا۔

ان کی بیش بہا خدمات کا تذکرہ کرنا نہ آسان ہے اور نہ ہی ابھی اتنا وقت ہے کہ اس پر سیر حاصل گفتگو کی جائے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا جنرل سکریٹری ہونا اور امارت شرعیہ کے امارت کی ذمہ داری ان کی ذہانت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کا کشف تھا کہ نائب امیر شریعت کی جگہ خالی تھی اس بیماری کی حالت میں انہوں نے دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ اور میرے شاگرد رشید مولانا شمشاد رحمانی کو بلا کر نائب امیر شریعت کا عہدہ تفویض کردیا۔ یہ بہرحال ان کا کارنہ تھا۔

اللہ کا بڑا فضل ان کے ساتھ رہا کہ اخیر دم تک دنیا والوں کے سامنے پوری حمیت کے ساتھ ڈٹے رہے اور قوم و ملت کی خدمت کرتے رہے۔ اللہ کی راہ میں اپنی جان نچھاور کرتے رہے۔ اور کبھی اللہ نے انہیں محتاج نہیں بنایا۔ میں دنیا والوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ---

اس طرح جاؤ کے ترسیں تمہیں دنیا والے

یوں تو جانے کو سبھی لوگ چلے جاتے ہیں

تمام جہان کے لوگوں کو ختم ہونا ہے۔ اللہ کے سامنے حاضر و ناظر ہونا ہے۔ لیکن اللہ تعالی سے میری یہی دعا ہے کہ ایسی موت سب کو نصیب فرمائے۔ اللہ تعالی ان کی تمام لغزشوں کو معاف فرمائے۔

آج مورخہ 3 اپریل2021 کو ایسا غمناک اور المناک واقعہ پیش آیا کہ زبان بند اور دل بے قابو ہے۔ مولانا عبدالسبحان رحمانی کا کہنا ہے کہ یہ المناک اور غم ناک خبر سن کر انہیں ایسا لگا کہ جیسے کے اچانک ان پر بجلی گری۔

انہوں نے کہا کہ 'میری پوری زندگی ان کے ساتھ گزری۔ ذرا ہوش سنبھالا تبھی سے ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ میں نے انہیں خلوت اور جلوت دونوں میں دیکھا ہے۔ اتنا ذہین، دور رس اور جُری آدمی میں نے اس ملک میں نہیں دیکھا۔

میں نے دین کے معاملے میں اتنی مضبوط شخصیت ملک و بیرون ملک بھی بھی کہیں نہیں دیکھی۔ تادم اخیر میرا رابطہ اور تعلق ان سے رہا۔

وہ میرے لیے والدین کی حیثیت رکھتے تھے۔ انتہائی درد اور محبت کے ساتھ انہوں ںے ہماری رہنمائی اور آبیاری دونوں کی۔ پالا پوسا بھی اور جامعہ رحمانی میں تعلیم مکمل کروانے کے بعد وہیں پڑھانے کا موقع بھی دیا۔

استاذ بھی تھے، مربی اور رہنما بھی تھے۔ عمر کے لحاظ سے ہمارے مابین زیادہ فاصلہ نہیں تھا لیکن انہون ںے ایک مخلص و ہمدرد، ایک عزیز کی طرح، قریبی بھائی کی طرح رکھا اور اس طرح پوری زندگی جامعہ رحمانی میں ہم نے گزار دی۔ اور اس محبت میں کبھی رتی بھر بھی فرق نہیں آیا یہی وجہ ہے کہ میں جامعہ رحمانی کا ہی ہوکر رہ گیا۔

میں نے ان کے والد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو بھی قریب سے دیکھا ہے۔ یہ اپنی زندگی میں پچاسوں مدارس کے ذمہ دار رہے۔ دین و ملت کا کام اس جرات و بے باکی اور ذہانت کے ساتھ کیا کہ آج ایسی ایک شخصیت ملنی مشکل ہے۔ اب اللہ تعالی نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ یہ تو مشیت کا فیصلہ ہے لیکن ابھی ان کی ضروت قوم و ملت کو تھی۔

جو حالات ابھی ملک میں پیدا ہو رہے ہیں اور جن حالات سے مسلمان دو چار ہیں ایسے موقع پر جرات مندی کے ساتھ مسلمانوں کے مسائل حل کرنا اور بڑے بڑے امور میں رہنمائی کرنا ان کی انفرادیت تھی۔ ابھی ہندوستان کا ہر چھوٹا بڑا ان کی کمی کو محسوس کرے گا۔ ان کے جانے کے بعد ان کی اہمیت مزید محسوس کی جائے گی۔

میں اس وقت کلکتہ میں ہوں۔ جیسے ہی یہ خبر ملی میرے اوپر جو ذاتی اثر تھا وہ تو تھا ہی، کلکتہ میں جتنے جاننے والے تھے اور یہاں وہاں پھیلے ہوئے اس تسلسل کے ساتھ ان کا فون آنا شروع ہوا کہ ایسا لگا کہ قوم و ملت پر بجلی گرگئی۔

بات کرتے ہوئے بہت سے لوگ زاروقطار رو رہے تھے، میں انہیں بھی اطمینان بھی دلا رہا تھا اور خود کو بھی مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان کے فراق اور جدائی میں آنسو بہانے والوں کو اطمینان دلا رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ اللہ کوئی نعم البدل عطا کرے گا۔

ان کی بیش بہا خدمات کا تذکرہ کرنا نہ آسان ہے اور نہ ہی ابھی اتنا وقت ہے کہ اس پر سیر حاصل گفتگو کی جائے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا جنرل سکریٹری ہونا اور امارت شرعیہ کے امارت کی ذمہ داری ان کی ذہانت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کا کشف تھا کہ نائب امیر شریعت کی جگہ خالی تھی اس بیماری کی حالت میں انہوں نے دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ اور میرے شاگرد رشید مولانا شمشاد رحمانی کو بلا کر نائب امیر شریعت کا عہدہ تفویض کردیا۔ یہ بہرحال ان کا کارنہ تھا۔

اللہ کا بڑا فضل ان کے ساتھ رہا کہ اخیر دم تک دنیا والوں کے سامنے پوری حمیت کے ساتھ ڈٹے رہے اور قوم و ملت کی خدمت کرتے رہے۔ اللہ کی راہ میں اپنی جان نچھاور کرتے رہے۔ اور کبھی اللہ نے انہیں محتاج نہیں بنایا۔ میں دنیا والوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ---

اس طرح جاؤ کے ترسیں تمہیں دنیا والے

یوں تو جانے کو سبھی لوگ چلے جاتے ہیں

تمام جہان کے لوگوں کو ختم ہونا ہے۔ اللہ کے سامنے حاضر و ناظر ہونا ہے۔ لیکن اللہ تعالی سے میری یہی دعا ہے کہ ایسی موت سب کو نصیب فرمائے۔ اللہ تعالی ان کی تمام لغزشوں کو معاف فرمائے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.