ETV Bharat / state

گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز - Inayat Khan worked as a laborer in the British government

50 پیسے کے ایک کمرے سے قائم ہوا ،گیا مسلم یتیم خانہ اپنے سوسال سے زیادہ کا عرصہ پورا کرچکا ہے، اس یتیم خانے نے نہ صرف ہزاروں یتیم بچوں کی زندگیاں سنواری، بلکہ پورے علاقے میں علم کی شمع بھی روشن کیا۔

گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز
گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز
author img

By

Published : Sep 14, 2021, 9:12 PM IST

بہار کے ضلع گیا کے چیرکی میں واقع گیا مسلم یتیم خانہ اپنے سوسال سے زیادہ کا عرصہ پورا کر چکا ہے۔ غلام بھارت میں چندہ اور تعاون سے شروع کئے گئے کسی ادارے کا تمام مشکلوں کو برداشت کرتے ہوئے یہاں تک پہنچنا اور بدلتے حالات میں مستحکم رہنا بڑی بات ہے۔

گیا کا مسلم یتیم خانہ۔ یتیم اور نادار بچوں کی بہتری کے خواب کے ساتھ اکتوبر 1917 میں عنایت احمد خان نے 50 پیسے سے قائم کیا تھا جو آج بے حد مستعدی اور مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے، گزرے سو سالوں میں ہزاروں یتیم بچوں کی زندگی اس یتیم خانے سے نہ صرف سنواری گئی، بلکہ پورے علاقے میں علم کی شمع بھی روشن کی گئی۔

گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز
گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز

جس وقت اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی اس وقت شیرگھاٹی سے لے کر گیا شہر تک کوئی مذہبی ادارہ یا سرکاری اسکول نہیں تھا لاکھوں کی آبادی بغیر تعلیم کے اس علاقے میں مقیم تھی،

موجودہ وقت میں کورونا وبا سے پہلے تک اس یتیم خانہ کے ہاسٹل میں تقریبا ڈیڑھ سو سے زائد بچے زیر تعلیم تھے جن کی تعلیم اور طعام و قیام کے تمام انتظامات یتیم خانہ کمیٹی کی جانب سے کیا جاتا تھا۔ ابھی کورونا کی وجہ سے ہاسٹل اور تعلیمی نظام کو شروع نہیں کیا گیا ہے لیکن دفتر اور دوسرے کاموں کے لیے یتیم خانہ کھل چکا ہےایک کمرے سے شروع ہوا سفر.

گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز
گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز

چیرکی کے رہنے والے عنایت احمد خان کولکاتا کے ایک ہوٹل میں بطور ویٹر کام کرتے تھے. جب وہ گھر آتے تو گاؤں میں یتیم بچوں اور اقتصادی طور پر کمزور بچوں کو دیکھ کر انہیں تکلیف ہوتی۔ اس تعلق سے عنایت خان کے پوتے سہیل احمد کے مطابق ایک بار وہ چھٹی میں گاوں آئے اور جب جانے لگے تو گاؤں کے دو یتیم بچوں کو اپنے ساتھ کلکتہ لے گئے، وہاں انہوں نے دونوں بچوں کو ایک یتیم خانہ میں رکھوانا چاہا تو یتیم خانہ انتظامیہ نے یہ کہتے ہوئے رکھنے سے منع کردیا کہ تیم خانہ میں اور بچوں کو رکھنے کی جگہ نہیں ہے، اس دوران کسی نے یہ بھی کہا کہ اگر اتنی ہی فکر ہے تو خود کیوں نہیں یتیم خانہ کھول لیتے، سہیل خان بتاتے ہیں کہ یہ بات سے ان کے دادا کو تکلیف ہوئی اور وہ ان بچوں کو لے کر واپس گاؤں آگئے اور اسی ارادے کے ساتھ واپس آئے کہ وہ اپنے گاؤں میں علم کی شمع روشن کریں گے۔

گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز
گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز

آج ہزاروں کی تعداد میں طلباء یہاں سے پڑھ کر بڑے بڑے عہدے پر فائز ہیں، یتیم خانے کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب بہار جھارکھنڈ اڈیسہ میں ایک بھی یتیم خانہ نہیں تھا بلاتفریق مذہب کے یہاں بچوں نے تعلیم حاصل کی اور تعلیم سے آراستہ ہونے والوں میں ہندو طبقے کے بھی طلباء تھے، کیونکہ اس وقت اس علاقے میں ایک بھی تعلیمی ادارہ نہیں تھا۔ گویا کہ سو برس کے سفر کے دوران جو ایک کمرے سے شروع ہوا تھا آج وہ ادارہ بارہ ہیکڑ میں پھیلا ہوا ہے۔ دینی و عصری تعلیم کا یہ سینٹر ہوگیا ہے۔ مڈل اسکول ہائی اسکول کی تعلیم کے ساتھ یہاں جدید کورس بھی کرائے جاتے ہیں گویا کہ عنایت خان بہار کے " سر سید احمد خان" ہیں

ویڈیو

غریب گھرانے میں پیدا ہوئے عنایت خان انگریزی حکومت میں لیبر کا کام کرتے تھے عنایت خان نے کلکتہ میں بڑی مشقتوں کے بعد دینی تعلیم حاصل کی تھی وہ دن میں گرینڈ ہوٹل میں ویٹر کا کام کرتے اور رات میں سڑک کے کنارے اسٹریٹ لائٹ میں پڑھا کرتے تھے وہ بچپن سے ہی گاوں اور علاقے کے لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی سوچ رکھتے تھے اسکول کے پرنسپل منہاج الاسلام بتاتے ہیں۔

گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز
گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز

اسکول کے پرنسپل منہاج الاسلام بتاتے ہیں کہ علاقے کے ہندوؤں کی بڑی آبادی کا یہاں سے تعلیمی تعلق رہا ہے. ہندوؤں نے بھی اس یتیم خانے کو بنانے میں مدد کی ہے۔ ہزاروں افراد ایسے تھے جو اردو میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت میں رہے آج بھی یہاں کے مڈل اسکول اور ہائی اسکول و عنایت انسی ٹیوٹ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یتیم خانے نے تعلیم کے معاملے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔

مزید پڑھیں:

یتیم خانہ میں موجود ستیش کمار کہتے ہیں کہ وہ یہاں ڈسٹینس کورس سے ایم اے کررہے ہیں ان کے گھر کے کئی افراد یہاں سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں. مدارس پر انگلیاں اٹھانے والوں کو اس یتیم خانے کو دیکھنا چاہیے کیونکہ یہاں بلا تفریق نہ صرف تعلیم دی جاتی ہے بلکہ یتیم خانے نے ہی یہاں اس وقت علم کی روشنی پھیلانے میں تعاون کیا جب یہاں ادارے نہیں تھے۔

گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز
گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز

50 پیسے سے ایک کمرہ کرایہ پر لے کر یتیم خانے کا سفر شروع ہوا جو مسلسل آج تک جاری ہے، اس دوران عنایت خان کو لوگوں کی ناراضگی کا بھی سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن آج ایک کمرہ کا یتم خانہ بارہ ہیکڑ میں پھیلا ہوا ہے۔ دینی و عصری تعلیم کا یہ سینٹر ہوگیا ہے مڈل اسکول ہائی اسکول کی تعلیم کے ساتھ یہاں جدید کورس بھی کرائے جاتے ہیں گویا کہ عنایت خان بہار کے " سر سید احمد خان" ہیں

واضح رہے کہ یتیم خانے میں کئ بڑی ہستیاں تشریف لا چکے ہیں جن میں سابق صدر جمہوریہ ہند راجندر پرساد ، ڈاکٹر ذاکر حسین، چیف جسٹس آف انڈیا، کئی ریاستوں کے گورنر کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو کا نام قابل ذکر ہے۔

بہار کے ضلع گیا کے چیرکی میں واقع گیا مسلم یتیم خانہ اپنے سوسال سے زیادہ کا عرصہ پورا کر چکا ہے۔ غلام بھارت میں چندہ اور تعاون سے شروع کئے گئے کسی ادارے کا تمام مشکلوں کو برداشت کرتے ہوئے یہاں تک پہنچنا اور بدلتے حالات میں مستحکم رہنا بڑی بات ہے۔

گیا کا مسلم یتیم خانہ۔ یتیم اور نادار بچوں کی بہتری کے خواب کے ساتھ اکتوبر 1917 میں عنایت احمد خان نے 50 پیسے سے قائم کیا تھا جو آج بے حد مستعدی اور مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے، گزرے سو سالوں میں ہزاروں یتیم بچوں کی زندگی اس یتیم خانے سے نہ صرف سنواری گئی، بلکہ پورے علاقے میں علم کی شمع بھی روشن کی گئی۔

گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز
گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز

جس وقت اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی اس وقت شیرگھاٹی سے لے کر گیا شہر تک کوئی مذہبی ادارہ یا سرکاری اسکول نہیں تھا لاکھوں کی آبادی بغیر تعلیم کے اس علاقے میں مقیم تھی،

موجودہ وقت میں کورونا وبا سے پہلے تک اس یتیم خانہ کے ہاسٹل میں تقریبا ڈیڑھ سو سے زائد بچے زیر تعلیم تھے جن کی تعلیم اور طعام و قیام کے تمام انتظامات یتیم خانہ کمیٹی کی جانب سے کیا جاتا تھا۔ ابھی کورونا کی وجہ سے ہاسٹل اور تعلیمی نظام کو شروع نہیں کیا گیا ہے لیکن دفتر اور دوسرے کاموں کے لیے یتیم خانہ کھل چکا ہےایک کمرے سے شروع ہوا سفر.

گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز
گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز

چیرکی کے رہنے والے عنایت احمد خان کولکاتا کے ایک ہوٹل میں بطور ویٹر کام کرتے تھے. جب وہ گھر آتے تو گاؤں میں یتیم بچوں اور اقتصادی طور پر کمزور بچوں کو دیکھ کر انہیں تکلیف ہوتی۔ اس تعلق سے عنایت خان کے پوتے سہیل احمد کے مطابق ایک بار وہ چھٹی میں گاوں آئے اور جب جانے لگے تو گاؤں کے دو یتیم بچوں کو اپنے ساتھ کلکتہ لے گئے، وہاں انہوں نے دونوں بچوں کو ایک یتیم خانہ میں رکھوانا چاہا تو یتیم خانہ انتظامیہ نے یہ کہتے ہوئے رکھنے سے منع کردیا کہ تیم خانہ میں اور بچوں کو رکھنے کی جگہ نہیں ہے، اس دوران کسی نے یہ بھی کہا کہ اگر اتنی ہی فکر ہے تو خود کیوں نہیں یتیم خانہ کھول لیتے، سہیل خان بتاتے ہیں کہ یہ بات سے ان کے دادا کو تکلیف ہوئی اور وہ ان بچوں کو لے کر واپس گاؤں آگئے اور اسی ارادے کے ساتھ واپس آئے کہ وہ اپنے گاؤں میں علم کی شمع روشن کریں گے۔

گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز
گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز

آج ہزاروں کی تعداد میں طلباء یہاں سے پڑھ کر بڑے بڑے عہدے پر فائز ہیں، یتیم خانے کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب بہار جھارکھنڈ اڈیسہ میں ایک بھی یتیم خانہ نہیں تھا بلاتفریق مذہب کے یہاں بچوں نے تعلیم حاصل کی اور تعلیم سے آراستہ ہونے والوں میں ہندو طبقے کے بھی طلباء تھے، کیونکہ اس وقت اس علاقے میں ایک بھی تعلیمی ادارہ نہیں تھا۔ گویا کہ سو برس کے سفر کے دوران جو ایک کمرے سے شروع ہوا تھا آج وہ ادارہ بارہ ہیکڑ میں پھیلا ہوا ہے۔ دینی و عصری تعلیم کا یہ سینٹر ہوگیا ہے۔ مڈل اسکول ہائی اسکول کی تعلیم کے ساتھ یہاں جدید کورس بھی کرائے جاتے ہیں گویا کہ عنایت خان بہار کے " سر سید احمد خان" ہیں

ویڈیو

غریب گھرانے میں پیدا ہوئے عنایت خان انگریزی حکومت میں لیبر کا کام کرتے تھے عنایت خان نے کلکتہ میں بڑی مشقتوں کے بعد دینی تعلیم حاصل کی تھی وہ دن میں گرینڈ ہوٹل میں ویٹر کا کام کرتے اور رات میں سڑک کے کنارے اسٹریٹ لائٹ میں پڑھا کرتے تھے وہ بچپن سے ہی گاوں اور علاقے کے لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی سوچ رکھتے تھے اسکول کے پرنسپل منہاج الاسلام بتاتے ہیں۔

گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز
گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز

اسکول کے پرنسپل منہاج الاسلام بتاتے ہیں کہ علاقے کے ہندوؤں کی بڑی آبادی کا یہاں سے تعلیمی تعلق رہا ہے. ہندوؤں نے بھی اس یتیم خانے کو بنانے میں مدد کی ہے۔ ہزاروں افراد ایسے تھے جو اردو میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت میں رہے آج بھی یہاں کے مڈل اسکول اور ہائی اسکول و عنایت انسی ٹیوٹ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یتیم خانے نے تعلیم کے معاملے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔

مزید پڑھیں:

یتیم خانہ میں موجود ستیش کمار کہتے ہیں کہ وہ یہاں ڈسٹینس کورس سے ایم اے کررہے ہیں ان کے گھر کے کئی افراد یہاں سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں. مدارس پر انگلیاں اٹھانے والوں کو اس یتیم خانے کو دیکھنا چاہیے کیونکہ یہاں بلا تفریق نہ صرف تعلیم دی جاتی ہے بلکہ یتیم خانے نے ہی یہاں اس وقت علم کی روشنی پھیلانے میں تعاون کیا جب یہاں ادارے نہیں تھے۔

گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز
گیا یتیم خانہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکز

50 پیسے سے ایک کمرہ کرایہ پر لے کر یتیم خانے کا سفر شروع ہوا جو مسلسل آج تک جاری ہے، اس دوران عنایت خان کو لوگوں کی ناراضگی کا بھی سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن آج ایک کمرہ کا یتم خانہ بارہ ہیکڑ میں پھیلا ہوا ہے۔ دینی و عصری تعلیم کا یہ سینٹر ہوگیا ہے مڈل اسکول ہائی اسکول کی تعلیم کے ساتھ یہاں جدید کورس بھی کرائے جاتے ہیں گویا کہ عنایت خان بہار کے " سر سید احمد خان" ہیں

واضح رہے کہ یتیم خانے میں کئ بڑی ہستیاں تشریف لا چکے ہیں جن میں سابق صدر جمہوریہ ہند راجندر پرساد ، ڈاکٹر ذاکر حسین، چیف جسٹس آف انڈیا، کئی ریاستوں کے گورنر کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو کا نام قابل ذکر ہے۔

For All Latest Updates

TAGGED:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.