گیا کے شیرگھاٹی سب ڈویژن کے کوٹھی تھانہ حدود میں واقع پرائمری ہیلتھ سینٹر میں گذشتہ کئی برسوں سے تالا لٹکا ہوا ہے، اسکی وجہ ڈاکٹر اور ہیلتھ ورکرز کا نہیں ہونا ہے، آزادی کے بعد سے ہی کوٹھی کا علاقہ بہتر طبی سہولیات کے لیے حکومت کی مدد کا منتظر ہے۔
کوٹھی تھانہ علاقے میں پانچ پنچایت ہیں۔ یہاں قریب 60 ہزار سے زیادہ کی آبادی ہے۔ محکمہ ہیلتھ کی جانب سے کوٹھی میں ایک اضافی پرائمری ہیلتھ سنٹر تو کھول دیا گیا لیکن 26 سالوں سے کوئی ڈاکٹر نہیں پہنچا ہے۔ کوٹھی علاقے میں آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ ہیلتھ سینٹر سنہ 1993 میں کھولا گیا تھا۔ کرایہ کے مکان میں چلنے والے ہیلتھ سینٹر پر سنہ 1993 میں ڈاکٹر محسن انصاری کی بحیثیت ڈاکٹر تعیناتی ہوئی تھی، قریب دو سالوں تک ڈاکٹر محسن یہاں علاج و معالجہ میں رہے تاہم سنہ 1995 میں انکا تبادلہ ہوگیا لیکن اسکے بعد سے آج تک ڈاکٹر تو دور ایک کمپاؤنڈر تک کی بھی بحالی نہیں ہوئی اور اس کی وجہ کیا رہی یہ علاقے کے باشندوں کے سمجھ سے پرے ہے۔
نکسلی اور سنلائٹ سینا کی واردات میں کمی ہوئی تو لوگوں نے سوچا کہ علاقہ خوشحالی کی طرف بڑھے گا لیکن بنیادی سہولیات خصوصی طور پر ہیلتھ، ایجوکیشن اور روزگار سمیت دوسری چیزوں کے فقدان کے باعث آج بھی اس علاقے میں خوشحالی و ترقی کی رفتار بڑھ نہیں پائی ہے۔ حالانکہ اس علاقے کی سڑکیں اور بجلی کا نظام پہلے کے بنسبت کافی حد تک بہتر ہےلیکن آج بھی یہاں کے باشندے کئی کلو میٹر چل کر امام گنج سی ایچ سی میں علاج کے لیے پہنچتے ہیں۔
60 ہزار کی آبادی قسمت کے سہارے
مقامی لوگ کہتے ہیں کہ کوٹھی تھانہ علاقے میں بیکوپور، منجھولی، براج اور لاوا بار پنچایت آتا ہے۔ ان پنچائتوں میں 60 ہزار سے زیادہ کی آبادی بستی ہے، یہ علاقہ بہار جھارکھنڈ کی سرحد پر ہے۔ اس علاقے کے لوگوں کو بیمار ہونے پر امام گنج سی ایچ سی میں جانا پڑتا ہے، کوٹھی سے امام گنج کی دوری جہاں بارہ کلومیٹر ہے، وہیں سلیا پنچایت کے دور دراز کے گاؤں کے لوگوں کو امام گنج پہنچنے میں تیس کلومیٹر سے زیادہ کا سفر کرنا پڑتا ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے اگر یہاں کورونا کے دور میں اس اسپتال میں علاج ہوتا تو بہت سے لوگوں کی جان بچ سکتی تھی، ان پنچایت میں بخار اور سانس لینے میں ہونے والی پریشانیوں سے درجنوں لوگوں کی موت ہو گئی ہے۔
سردی، کھانسی زکام کی دوا بھی نصیب نہیں
مقامی باشندہ اور پنچایت نمائندہ شوکت خان کا کہنا ہے کہ یہاں کے اسپتال میں پچھلے ایک سال سے تالا لگا ہوا ہے، موجودہ حالات میں جب پورا علاقہ کووڈ19 سے جوجھ رہا ہے تو ایسے میں سب سے بڑا مسئلہ زندگی بچانے کا ہے۔ علاج تو دور کی بات ہے اگر کسی کو کورونا کی جانچ کرانی ہے تو اسے بھی امام گنج سی ایچ سی میں جانا پڑتا ہے۔ حالات اصل میں یہ ہیں کہ یہاں سردی کھانسی کی دوا بھی عام لوگوں کو نصیب نہیں ہے بلکہ انہیں دوائیوں کے لیے بھی امام گنج جانا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ قسمت کے بھروسے زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ معاملہ صرف کوٹھی تھانہ حدود کی ساٹھ ہزار آبادی کا ہے بلکہ اسکے علاوہ امام گنج، ڈومریا، میگرا تھانہ حدود کے درجنوں گاوں کا بھی یہی حال ہے جو کہ طبی سہولیات کے لیے ترس رہا ہے۔ ایمرجنسی حالات ہوں تو شہر گیا کے ہسپتالوں کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے جو کہ یہاں سے قریب نوے کلومیٹر دور ہے، حیرت تو یہ ہے کہ ولادت کے لیے کوئی " خواتین اسپیشلسٹ ہسپتال" نہیں ہے جسکے سبب دیہات کے ڈاکٹروں کے چکر میں ڈلیوری کے وقت حاملہ خاتون کی موت بھی ہوجاتی ہے۔
علاقے کے سماجی کارکن چھوٹن خان کہتے ہیں کہ اضافی پرائمری ہیلتھ سینٹر بند ہے، سول سرجن، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سمیت محکمہ ہیلتھ کے ریاستی وزیر تک درخواست دی گئی ہے۔ ڈی ایم کی جائزہ میٹنگ میں بھی یہ بات رکھی گئی تاہم یقین دہانی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں لگا ہے۔
انہوں نے کہا یہاں علاج تو دور کی بات ہے ابھی تک جانچ کیمپ بھی دوسری لہر کے دوران نہیں لگا ہے۔ اگر کسی کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی اور وہ کورونا کا جانچ کرانا چاہتا ہے تو اسے امام گنج سی ایچ سی یا پھر رانی گنج پی ایچ سی جانا پڑتا ہے۔ اتنی آبادی کہ باوجود ایک ایمبولینس بھی نہیں ہے تو ایسی صورت میں یہاں جب کسی کی طبیعت خراب ہو تو اسے سواری گاڑیوں سے جانا پڑتا ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کورونا متاثر مریض اس میں سفر کر رہا ہے تو وہ کتنے افراد کو متاثر کرتے ہوئے ہسپتال تک پہنچے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ علاقہ کورونا وبا سے محفوظ ہے بلکہ اس علاقے میں بھی درجنوں افراد کورونا کی جنگ ہار چکے ہیں۔ ہر گھر میں کورونا کی علامات پائی جارہی تھی، اب کچھ حالات پہلے کے بنسبت بہتر ہیں۔
کیا کہتے ہیں ڈاکٹر انچارج
کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر علی انور کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ کورونا جانچ کے لیے گاؤں اور پنچائتوں تک محکمہ ہیلتھ کی ٹیم نہیں پہنچی ہے، کئی علاقے میں ٹیم گئی تو انہیں مقامی باشندوں کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دیہات میں آج بھی کورونا کے تئیں بیداری نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیلڈ میں ٹیم جاتی ہے تو کچھ علاقوں میں مقامی باشندے جانچ کرانے کو بمشکل تیار ہوتے ہیں جبکہ کئی جگہوں پر ٹیم کے ساتھ بدسلوکی بھی کی گئی ہے۔ ایسی صورت میں محکمہ کو بھی متعدد مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں مقامی تھانہ سے تعاون مانگا گیا لیکن کوئی مدد نہیں پہنچی ہے۔ انہوں نے کوٹھی میں واقع اضافی سی ایچ سی بند ہونے کے سوال پر کہا کہ یہ ڈسٹرکٹ سطح کا معاملہ ہے تاہم انکی بھی کوشش جاری ہے کہ یہاں کے ہیلتھ سسٹم کی حالت بہتر ہو۔
واضح رہے کہ محکمہ ہیلتھ کی بے توجہی کی وجہ سے سنہ 1995 کے بعد سے یہاں کوٹھی میں اضافی ہیلتھ سینٹر میں کسی ڈاکٹر کی بحالی نہیں ہوئی ہے۔ ایسے میں سوال کھڑا ہوتا ہے اگر حکومت کورونا وبا سے جنگ جیتنا چاہتی ہے تو کیا ہسپتالوں کی خستہ حالی دور کیے بنا ہی حکومت یہ جنگ جیتے گی ۔اگر حکومت دیہی علاقوں کے ہیلتھ سسٹم کو مضبوط نہیں کرے گی تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں