مجاہد آزادی Freedom Fighter اور بہار اسمبلی کے سابق اسپیکر الحاج غلام سرور Former Speaker Alhaj Ghulam Sarwar کی پیدائش 10 جنوری 1926 میں ضلع بیگو سرائے میں ہوئی تھی، آپ کا شمار بہار کے صف اول کے اردو صحافیوں میں ہوتا ہے، مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، تعلیمی اور اقتصادی مسائل پر ان کی بڑی نگاہ تھی اور ہمیشہ ان کے تدارک کے لئے سرگرداں رہے۔ آج بھی جب بھی اردو آبادی پر کسی طرح کے مسائل آتے ہیں یا ان سے سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہمیں غلام سرور خوب یاد آتے ہیں۔ غلام سرور کی ہمہ جہت شخصیت تھی، وہ اردو ادیب کے ساتھ شعلہ بیاں مقرر، صحافی، سیاست داں اور سماجی کارکن تھے، ان کے جانے کے بعد ان جیسی شخصیت بہار میں دوسری پیدا نہیں ہوسکی۔
مذکورہ باتیں غلام سرور کی تحریک سے جڑے رہے سینئر صحافی ریحان غنی نے غلام سرور کی یوم پیدائش کے موقع پر ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں کہی۔
ریحان غنی نے کہا کہ مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ میں ان کی کئی تحریکات میں شانہ بشانہ کھڑا رہا ہوں، ان کی ابتدائی زندگی پر نظر ڈالیں تو بڑی کسمپرسی کی زندگی رہی، کئی جدوجہد سے وہ گزرے، مگر کسی بھی موقع پر انہوں نے خود کو نیچے نہیں گرنے دیا بلکہ اپنا معیار اور وقار بنائے رکھا۔
ایک صحافی کی حیثیت سے انہوں نے سنگم اخبار نکالا تو چہار جانب شور مچ گیا، اس زمانے میں سنگم کا معاملہ یہ تھا کہ وہ حکومت کو تخت سے نیچے اتارتا اور بٹھاتا تھا۔ مگر ہمارے درمیان اس پائے کا کوئی سیاست داں اور دانشور نہیں رہا جس کی کمی مجھے ذاتی طور پر کھلتی ہے۔
ماہر تعلیم پروفیسر صفدر امام قادری نے کہا کہ غلام سرور صرف اپنی تحریروں سے نہیں بلکہ تقریروں سے بھی آگ اگلتے تھے، مجھے انہیں سننے کا شرف حاصل ہے۔ ان کی جلسہ گاہ میں ایک ہجوم ہوتا تھا۔ انہیں خوبیوں کی وجہ سے اور کانگریس کی مسلسل مخالفت کی وجہ سے جب بہار میں غیر کانگریسی حکومت بنی تو وہ وزیر تعلیم بنے اور پھر لالو حکومت میں اسمبلی کے اسپیکر بھی بنے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بہار میں غلام سرور نے اردو صحافت کے اعلیٰ معیار کو بنائے رکھا جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔