پٹنہ: مرکزی حکومت کی جانب سے عام بجٹ 2023-24 پیش کیے جانے کے بعد سے بجٹ کے ماہرین اپنی رائے پیش کر رہے ہیں۔ بجٹ میں بالخصوص اقلیتی امور کے بجٹ میں گذشتہ سال کے بنسبت اس بار 38 فیصد کی کمی کر دی گئی ہے جو موضوع بحث ہے۔ وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے وزارت اقلیتی فلاح و بہبود کا بجٹ الاٹمنٹ گھٹا کر 3097.60 کروڑ روپے کر دیا جب کہ 2022-23 میں یہ بجٹ 5020.50 کروڑ روپے تھا۔ جب کہ دیگر منصوبوں پر خرچ ہونے والے کروڑوں کے بجٹ کو 10 لاکھ روپے تک محدود کر دیا گیا۔ وہیں مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن بھی بند ہونے کے کگار پر کھڑی نظر آ رہی ہے کیونکہ اس کا بجٹ بھی محض دس لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔
معاشی امور کے جانکار و سابق رکن قانون ساز کونسل ڈاکٹر تنویر حسن موجودہ بجٹ کو مایوس کن بجٹ بتاتے ہوئے کہا کہ اس بجٹ میں عوام، کسان، بے روزگار نوجوان اور اقلیتوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے بلکہ وزارت اقلیتی امور کو جو بجٹ پہلے سے مختص تھے ان میں تقریباً دو ہزار کروڑ اور کم کر دیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت اقلیتوں کے بارے کیا سوچتی ہے اور اس کی ترقی کے لئے کتنے فکر مند ہیں۔ ابھی کچھ دنوں قبل اقلیتوں کی طرف جھکاؤ سے لوگ محسوس کر رہے تھے کہ مرکزی حکومت کو اقلیتوں کے تئیں ہمدردی پیدا ہوئی ہے مگر وہ صرف ایک دکھاوا تھا، حقیقت اس بجٹ سے ظاہر ہے۔ اقلیتی بجٹ میں جہاں اضافہ کرنا تھا وہاں اور بھی کم کر دیا گیا۔'
یہ بھی پڑھیں: Asim Azmi Reacts on Budget بجٹ میں اقلیتوں اور غریبوں کو نظر انداز کیا گیا، ابو عاصم اعظمی
ڈاکٹر تنویر حسن نے کہا کہ 'جب مرکزی حکومت کے عام بجٹ میں کمی کی گئی ہے تو اس کا اثر ملک کی الگ الگ ریاستوں پر بھی پڑے گا۔ اس کا اثر بہار حکومت کے اقلیتی بجٹ پر بھی آئے گا جہاں اقلیتوں کے لیے اتنے سارے منصوبے چل رہے ہیں، ممکن ہے بجٹ کم کئے جانے اور خسارے کی وجہ سے کئی منصوبوں کو بند بھی کرنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی بس ایک ہی منصوبے پر کام کرتی ہے اور وہ نفرت کی سوداگری ہے، جہاں نفرت پھیلا کر اقتدار پر قابض ہو سکتی ہے وہ اسے پورے انہماک سے کرتی ہے، باقی چیزوں سے اسے کوئی مطلب نہیں ہے۔ مجموعی طور پر یہ بجٹ کسی بھی طرح سے عوام کی امیدوں کے موافق نہیں ہے۔'