کیونکہ بارش کے سبب ندیوں کی آبی سطح میں اضافہ ہوگیا ہے اور سیلاب کا پانی پھر سے داخل ہونے لگا ہے۔
بارش کم ہونے سے پانی تو کم ضرور ہوا مگر ندیوں کے طغیانی میں کمی نہیں آئی۔
آج کوسی ندی کے دھار میں ڈوبنے سے ایک سات سالہ بچی کی موت ہو گئی، جس سے علاقے میں ماتم ہے۔
اہل خانہ غمزدہ ہے اور رو رو کر برا حال ہے۔
یہ حادثہ ارریہ شہر سے محض تین کلو میٹر دور ترشلیہ گھاٹ کے بسنت پور پنچایت کے محمد شمشاد کے گھر میں پیش آیا ہے۔
بارش ہونے سے مسلسل ندیوں میں پانی بڑھ رہا ہے جس سے لوگوں میں ایک بار پھر سے دہشت ہے۔
محمد شمشاد کی سات سالہ لڑکی عالیہ کچھ بچوں کے ساتھ گاؤں میں پھیلے پرمان ندی کے پانی کو پار کر کے سامان لانے گئی تھی کہ اچانک سے پاؤں پھسلنے سے عالیہ پانی میں گر پڑی، پانی میں دھار ہونے کے سبب بچی ڈوبنے لگی۔ ساتھ میں گئی بچوں کی چیخ پکار کے بعد گاؤں والے دوڑے اور بچی کو ندی کے پانی سے باہر نکالا گیا، بچی اس وقت تک زندہ تھی، مگر صدر ہسپتال لے جانے کے دوران وہ فوت کر گئی، محمد شمشاد کے چار بچوں میں عالیہ دوسرے نمبر پر تھی ، والدہ کا رو رو کر برا حال ہے، گاؤں والے اظہار تعزیت کرنے اس کے گھر پہنچ رہے ہیں۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ارریہ میں سیلاب سے ڈوب کر مرنے والوں کی تعداد اب تک 13 ہوگئی ہے، مگر غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق ڈوبنے سے اب تک بیس سے زائد لوگوں کی جان چکی ہے۔
گاؤں والوں کے مطابق دو دنوں سے ندی کے سطح میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور پھر دوبارہ سے گاؤں میں سیلاب کا پانی پھیل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضلع انتظامیہ کی جانب سے اس گاؤں پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے، یہاں کسی طرح کا کوئی ناؤں یا موٹر بوٹ کا نظم نہیں ہے، ناؤں اگر ہوتا تو بچی کی جان بچائی جا سکتی تھی۔
سوال یہ ہے کہ آخر سیلاب آنے کے بعد بھی ضلع انتظامیہ ایسے علاقوں میں ناؤں مہیا کیوں نہیں کرا رہی ہے، جہاں سیلاب کے پانی سے لوگوں کو خطرہ زیادہ ہے۔ آخر ان بچوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے۔