قومی دارالحکومت نئی دہلی کی سرحد سنگھو بارڈر پر بڑی تعداد میں کسان گذشتہ 19 دنوں سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
اب کسانوں کی حمایت میں فلاحی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں بھی آگے آ رہی ہیں۔
اسی ضمن میں ریاست بہار کے ضلع گیا میں کسانوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے زرعی قوانین کی مخالفت میں احتجاج کیا۔
شہر کے اندر جلوس نکالنے کے ساتھ ساتھ یک روزہ بھوک ہڑتال پر بھی بڑی تعداد میں لوگ رہے۔
مظاہرین نے حکومت سے زرعی قوانین کی واپسی کا مطالبہ کیا، اس دوران شہر کی مختلف سڑکوں پر احتجاجی جلوس بھی نکالا گیا۔
اس میں مرکزی وریاستی حکومت کے خلاف فلک شگاف نعرے بازی بھی کی گئی۔
گیا میں آج کسانوں اور طلباء کی مختلف تنظیموں کے علاوہ بائیں بازو کی سبھی جماعتوں سمیت کانگریس پارٹی اور آرجے ڈی نے مظاہرہ کیا ہے۔
رہنماؤں نے بتایا کہ ضلع ہیڈ کوارٹر سمیت بلاک ہیڈ کوارٹر پر زرعی قوانین کی مخالفت میں مظاہرے کئے جارہے ہیں۔
نئے زرعی قوانین سے صرف کسانوں کو نقصانات نہیں ہیں بلکہ ہر بھارتیہ کو اس کے اثرات کاسامنا ہوگا۔
مظاہرہ میں شامل رہنماؤں نے مرکزی حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت چند چہیتوں کو فائدے پہچانے کی غرض سے زرعی قوانین کو پاس کیا ہے۔
کانگریس پارٹی کے ضلعی صدر چندریکا پرساد نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زرعی قوانین کے خلاف پروٹیسٹ کسی پارٹی یا تنظیم یا کسی فرد واحد کا نہیں ہے بلکہ یہ کسانوں اور ہرایک شخص کا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی آبادی زراعت پر منحصر ہے۔
کسانوں کی حمایت میں کانگریس حکومت میں رہتے ہوئے بھی رہی ہے اور آج جب اپوزیشن میں ہے تب بھی ہے۔
سی پی آئی کی خاتون رہنما نیتا برنوال نے کہا کہ کسانوں کے احتجاج اور اتحاد سے حکومت گھبرا گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت کسانوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش میں ہے۔
انھوں نے کہا کہ کسان تنظیم کے رہنماؤں سے الگ الگ سے بات چیت کرنے کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔
کسانوں کے احتجاج کو ملک مخالف گرداننے کی کوشش ہورہی ہے، ٹکڑے ٹکڑے گینگ، شاہین باغ گینگ اور طرح طرح کے نام دے رہی ہے۔
مزید پڑھیں :'ہندو مسلم اتحاد کی مثال ہے قاضی ابد شاہ کا مزار'
برنوال کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود حکومت اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔
کسان تنظیم کے رہنما برجنندن نے کہا کہ اس کڑاکے کی سردی میں بھی کسان سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں تو کچھ تو باتیں ہوں گی۔
حکومت کو اپنی ضد چھوڑ کر زرعی قوانین کو ختم کرنا چاہیے اور حکومت کے حق میں بھی یہ قانون نہیں ہے۔