ساہتیہ اکادمی ایوارڈ 2020 کے لیے نامزد ہونے پر پروفیسر حسین الحق نے اپنے تاثرات میں کہا کہ پہلے یقین نہیں ہوا، کیونکہ آجکل ایوارڈ گروپ بندی اور لابزم سے زیادہ متاثر ہے اور وہ اپنی زندگی میں لابزم اور گروپ بندی سے کوسوں دور رہے ہیں، تاہم مجھے ایوارڈ کے لیے نامزد کیے جانے پر خوشی ہوئی اور اس کے لیے ساہتیہ اکادمی کا شکریہ۔
ریاست بہار کے شہر گیا سے تعلق رکھنے والے اردو کے مشہور ناول نگار اور مگدھ یونیورسٹی کے سابق صدر اور شعبہ اردو کے پروفیسر حسین الحق 2020 کے ان بیس مصنفوں میں شامل ہیں جن کو ادب کے باوقار قومی اعزاز ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
یہ ایوارڈ ان کو ان کے ناول " اماوس میں خواب" کے لیے دیا جائے گا جس کا موضوع ملک کے موجودہ سیاسی و سماجی حالات ہیں۔
ای ٹی وی بھارت اردو نے پروفیسر حسین الحق سے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ 2020 کے نامزدگی پر ان سے خصوصی بات چیت کی ہے۔
پروفیسر حسین الحق نے کہا کہ جب انہیں اس ایوارڈ سے متعلق معلومات فراہم کی گئی تو ان کا پہلا تاثر تھا کیا یہ صحیح ہے کیونکہ آج جس طرح سے ای وارڈوں کے لیے لابنگ ہوتی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
![اماوس میں خواب](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/bh-gay-exclusive-interview-hussainul-haq-gaya-vis-01-7209226_13032021144231_1303f_1615626751_1026.jpg)
حیرانی ہوئی کہ میں لابنگ سے دور رہا ہوں لیکن پھر بھی جب اطلاع ملی تو خوشی محسوس ہوئی" اپنے ناول اماوس میں خواب لکھنے کی تحریک کہاں سے ملی" اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ برسوں کے تجربات، آس پاس اور ملک و ریاست کے حالات اور شاندار ماضی کے ساتھ ہمارے مختلف کلچرل جو مل کر ایک بھارتیہ کلچر بنا ان ساری چیزوں کے برسوں کے مشاہدے سے میرے اندر پیدا ہوئے مواد" اماوس میں خواب " کی تحریر ہے۔
بولو مت چپ رہو اور فرات ناول کے کئی برسوں بعد سنہ 2005 میں اماوس میں خواب لکھنا شروع کیا قریب بارہ برسوں کی محنت ومشقت سے 2017 میں اماوس میں خواب کی تحریر مکمل ہو کر منظر عام پر آئیاماوس میں خواب میں مرکزی کردار " اسماعیل" کا خیال کہاں سے آیا اس سوال کے جواب میں حسین الحق نے کہا کہ یہ ایک ایسا کردار ہے جو بہار سمیت مختلف ریاستوں کوہوتے ہوئے ایک ہی بات واضح کرتا ہے۔
![exclusive interview of professor Hussain ul haque](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/bh-gay-exclusive-interview-hussainul-haq-gaya-vis-01-7209226_13032021144231_1303f_1615626751_285.jpg)
بولنے سے زیادہ متحرک ہے جو قربانی پیش کرنا جانتا ہے، چونکہ ایک اسماعیل تاریخ میں بھی ہیں جنہوں نے قربانیاں پیش کی ہیں، اماوس میں خواب میں آج کا پس منظر اس ناول کے کردار میں پیش کیا گیا ہے۔
کیا اسکا علم تھا کہ ایسے حالات پیدا ہونگے؟، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ ایک ناول نگار یا انشا پرداز لکھتا ہے تو وہ سبھی حالات کو ذہن میں رکھتا ہے، ماضی حال کی باتوں کے ساتھ مستقبل کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔
آج آدھا کارڈ ملک کے باشندوں کے لیے شناختی کارڈ ہے۔ صوفی خاندان سے تعلق ہونے کی حیثیت سے آج ایک بار پھر صوفی ازم پر بات ہورہی ہے اس سوال پر انہوں نے کہا کہ صوفی ازم اور لٹریچر جوڑتا ہے، ایک گلدستہ تیار کرتا ہے جس میں ہر پھول ہونگے، اگر عید منائی جاتی ہے تو امیرخسرو کے یہاں بسنت بھی منایا جاتا ہے۔
یہ ایک جو کھائی پیدا کی جارہی ہے کہ ہمارے محلے اور دوسرے محلے میں روایت الگ ہونگے۔ ہماری ہندوستانی ثقافت ایک ہے اور ایک رہے گی
واضح رہے کہ پروفیسر حسین الحق کا تعلق شہر گیا سے ہے۔ان کی تین ناول کافی مقبول ہے جس میں پہلا ناول " بولو مت چپ رہو، دوسرا فرات اور تیسرا ناول اماوس میں خواب ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قرآن پر پوری دنیا کے تمام فرقوں کے مسلمانوں کا مکمل اتفاق: مولانا ولی رحمانی
اماوس میں خواب ہی ساہتیہ اکادمی ایوارڈ 2020 کے لیے نامزد ہے۔ جن بیس مصنفوں کے نام کا اعلان ہوا ہے ان میں تین کا تعلق بہار سے ہے۔
وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے تینوں مصنفین کو مبارکباد پیش کی ہے۔