ETV Bharat / state

ذات پر مبنی مردم شماری سے وزیراعظم کیوں ڈر رہے ہیں: علی انور انصاری

author img

By

Published : Aug 23, 2021, 3:29 PM IST

علی انور نے بہار میں ذاتی مردم شماری کے حوالے سے کہا کہ 'جب کتوں اور گائے بھیس کی گنتی ہوسکتی ہے تو ذات پر مبنی مردم شماری کیوں نہیں ہوسکتی۔ لوگ تمام سرٹیفکیٹ میں ذات لکھتے ہیں۔یہاں پسماندہ اور انتہائی پسماندہ لوگ رہتے ہیں۔ اس مردم شماری سے یہ واضح ہوجائے گا کہ کس کی کیا حالت ہے اور سرکاری ملازمت میں کس کی کتنی نمائندگی ہے۔

علی انور انصاری
علی انور انصاری

ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں راجیہ سبھا کے سابق رکن علی انور انصاری نے پارلیمنٹ میں ذات پر مبنی مردم شماری پر ہونے والی بات کی پرزور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کو ذاب پر مبنی مردم شماری سے ڈرنا نہیں چاہیے، انہیں پسماندہ برادریوں کی حمایت حاصل ہے۔

علی انور انصاری کے ساتھ انٹرویو

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں راجیہ سبھا کے سابق رکن اور پسماندہ محاذ کے روح رواں علی انور انصاری نے ریاست کی سیاسی پارٹیوں کے وفد کے دہلی جانے پر کہا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کو ان کی بات قبول کرلینی چاہیے کیونکہ انہیں ملک کے پسماندہ طبقات کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پہلے کی طرح دوبارہ یہ غلطی نہیں ہونی چاہیے۔


علی انور نے کہا کہ مُجھے یہ فخر حاصل ہے کہ پارلیمنٹ میں میں نے پہلی بار اس کی آواز اٹھائی تھی، لیکن میری آواز سنی نہیں گئی۔ میرے بعد کئی اور سینیئر لیڈران نے اس کی بات کہی۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر غلط فہمی پھیلاتے ہیں کہ مسلمانوں میں ذات برادری نہیں ہے۔ لیکن منڈل کمیشن سے پہلے کاکا کالیلکر کمیٹی نے یہ قبول کیا تھا کہ مسلمانوں میں بھی ذات پات ہے۔ لیکن وہ رپورٹ ایوان میں پیش نہیں ہوئی اسے دبادیا گیا۔ اس کے بعد مرار جی بھائی دیسائی نے بھی کوشش کی لیکن اسے بھی دبادیا گیا، اس کے بعد منڈل کمیشن بنا۔

مزید پڑھیں:Nitish Meet PM: وزیر اعظم نریندر مودی سے نتیش کمار کی ملاقات


علی انور نے کہا کہ جب کتوں اور گائے بھیس کی گنتی ہوسکتی ہے تو ذات پر مبنی مردم شماری کیوں نہیں ہوسکتی۔ لوگ تمام سرٹیفکیٹ میں ذات لکھتے ہیں۔ یہاں پسماندہ اور انتہائی پسماندہ لوگ رہتے ہیں۔ اس مردم شماری سے یہ واضح ہوجائے گا کہ کس کی کیا حالت ہے۔ سرکاری ملازمت میں کس کی کتنی نمائندگی ہے۔ تاکہ جو سرکاری منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ اس کا عملی نفاذ ہو۔ یہاں تو لوگ بڑھا چڑھاکر اپنی اپنی برادری کے اعداد و شمار بتاتے ہیں۔

علی انور نے حکومت کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صحیح اعداد وشمار کا پتہ چل جانے میں کیا گڑبڑی ہے۔ لیکن جس حکومت نے کووڈ سے ہوئی اموات کے اعداد و شمار چھپادیے، اس حکومت کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ اس لیے جو وفد جارہا ہے اس کو تمام پہلوؤں پر گفتگو کرنی چاہیے۔ ایسی غلطی نہیں ہونی چاہئے جیسا تیجسوی یادو اور پانچ سیاسی پارٹیوں نے وزیراعلٰی کو میمورنڈم دینے میں کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ جب مردم شماری ہوگی تو سب کی ہوگی اس میں اونچی ذات والے بھی شامل ہوں گے۔ یہاں دلت اور آدی واسی کی ہوتی ہے لیکن دوسری برادریوں کی نہیں ہوتی ایک بار ہوجائے تو پتہ چل جائے گا کہ کن لوگوں تک سہولت پہنچی ہے۔

انہوں کہا کہ مردم شماری مرکزی حکومت کی جانب سے کروائی جاتی ہے، اس میں ریاستی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔

معلوم ہوکہ بہار میں ذاتی مردم شماری کو لے کر حزب اختلاف راشٹریہ جنتادل اور دیگر پارٹیوں نے سراپا احتجاج درج کراچکی ہے۔ اب دیکھنا کہ وزیراعظم نریندر مودی بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔

ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں راجیہ سبھا کے سابق رکن علی انور انصاری نے پارلیمنٹ میں ذات پر مبنی مردم شماری پر ہونے والی بات کی پرزور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کو ذاب پر مبنی مردم شماری سے ڈرنا نہیں چاہیے، انہیں پسماندہ برادریوں کی حمایت حاصل ہے۔

علی انور انصاری کے ساتھ انٹرویو

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں راجیہ سبھا کے سابق رکن اور پسماندہ محاذ کے روح رواں علی انور انصاری نے ریاست کی سیاسی پارٹیوں کے وفد کے دہلی جانے پر کہا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کو ان کی بات قبول کرلینی چاہیے کیونکہ انہیں ملک کے پسماندہ طبقات کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پہلے کی طرح دوبارہ یہ غلطی نہیں ہونی چاہیے۔


علی انور نے کہا کہ مُجھے یہ فخر حاصل ہے کہ پارلیمنٹ میں میں نے پہلی بار اس کی آواز اٹھائی تھی، لیکن میری آواز سنی نہیں گئی۔ میرے بعد کئی اور سینیئر لیڈران نے اس کی بات کہی۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر غلط فہمی پھیلاتے ہیں کہ مسلمانوں میں ذات برادری نہیں ہے۔ لیکن منڈل کمیشن سے پہلے کاکا کالیلکر کمیٹی نے یہ قبول کیا تھا کہ مسلمانوں میں بھی ذات پات ہے۔ لیکن وہ رپورٹ ایوان میں پیش نہیں ہوئی اسے دبادیا گیا۔ اس کے بعد مرار جی بھائی دیسائی نے بھی کوشش کی لیکن اسے بھی دبادیا گیا، اس کے بعد منڈل کمیشن بنا۔

مزید پڑھیں:Nitish Meet PM: وزیر اعظم نریندر مودی سے نتیش کمار کی ملاقات


علی انور نے کہا کہ جب کتوں اور گائے بھیس کی گنتی ہوسکتی ہے تو ذات پر مبنی مردم شماری کیوں نہیں ہوسکتی۔ لوگ تمام سرٹیفکیٹ میں ذات لکھتے ہیں۔ یہاں پسماندہ اور انتہائی پسماندہ لوگ رہتے ہیں۔ اس مردم شماری سے یہ واضح ہوجائے گا کہ کس کی کیا حالت ہے۔ سرکاری ملازمت میں کس کی کتنی نمائندگی ہے۔ تاکہ جو سرکاری منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ اس کا عملی نفاذ ہو۔ یہاں تو لوگ بڑھا چڑھاکر اپنی اپنی برادری کے اعداد و شمار بتاتے ہیں۔

علی انور نے حکومت کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صحیح اعداد وشمار کا پتہ چل جانے میں کیا گڑبڑی ہے۔ لیکن جس حکومت نے کووڈ سے ہوئی اموات کے اعداد و شمار چھپادیے، اس حکومت کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ اس لیے جو وفد جارہا ہے اس کو تمام پہلوؤں پر گفتگو کرنی چاہیے۔ ایسی غلطی نہیں ہونی چاہئے جیسا تیجسوی یادو اور پانچ سیاسی پارٹیوں نے وزیراعلٰی کو میمورنڈم دینے میں کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ جب مردم شماری ہوگی تو سب کی ہوگی اس میں اونچی ذات والے بھی شامل ہوں گے۔ یہاں دلت اور آدی واسی کی ہوتی ہے لیکن دوسری برادریوں کی نہیں ہوتی ایک بار ہوجائے تو پتہ چل جائے گا کہ کن لوگوں تک سہولت پہنچی ہے۔

انہوں کہا کہ مردم شماری مرکزی حکومت کی جانب سے کروائی جاتی ہے، اس میں ریاستی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔

معلوم ہوکہ بہار میں ذاتی مردم شماری کو لے کر حزب اختلاف راشٹریہ جنتادل اور دیگر پارٹیوں نے سراپا احتجاج درج کراچکی ہے۔ اب دیکھنا کہ وزیراعظم نریندر مودی بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.